الیکشن ملک وقوم کی قسمت سنوارنے کا آخری موقع ہیں …نوازشریف تاحال امیرالمومنین بننے کے امیدوار میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’آئندہ انتخابات ملک وقوم کی قسمت سنوارنے کا آخری موقعہ ہیں‘‘ کیونکہ یہی ابھی باقی رہ گئی ہے ورنہ ہم اپنی قسمت تو کافی دیرسے سنوار چکے ہیں، اور ، اگر اس میں کوئی کسر رہ گئی ہوتو الیکشن میں کامیاب ہوکر وہ بھی پوری کردیں گے جبکہ عمران خان تو اتنے عرصے میں اپنی قسمت نہیں سنوار سکے، ملک وقوم کی قسمت کیا سنواریں گے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’عوام باشعور ہوچکے ہیں‘‘ اور اسی بات سے ہم بھی ڈررہے ہیں کہ یہ شعور کہیں ہمارا لاشعور ہی نہ الٹا کر رکھ دے کیونکہ باشعور ہونے کے بعد آدمی ہمیشہ صحیح فیصلہ کرتا ہے چنانچہ الیکشن کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ ہم نے باشعور بننے کی بھی کوششیں شروع کردی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں کام کہیں بیچ میں ہی رہ جائیں گے اور اسی قسمت پر گزارہ کرنا پڑے گا جسے مزید سنوارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یقین ہے کہ عوام اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئندہ انتخابات کرپٹ حکمرانوں کا یوم احتساب ہیں ‘‘ اور ، امید ہے کہ سابقہ کرپٹ حکمران اس احتساب سے بچے رہیں گے کیونکہ گڑے مردے اکھاڑنے کا کیا فائدہ ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں راولپنڈی سے آئے ہوئے ایک وفد سے ملاقات کررہے تھے۔ بسنت منانے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا …نجم سیٹھی نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ’’بسنت منانے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا ‘‘ حالانکہ کربھی لیا تھا لیکن اس کے خلاف شور ہی اتنا مچ گیا کہ ذرا رکنا پڑ گیا، ورنہ ہم تو ہر فیصلہ وقت پر بلکہ وقت سے پہلے ہی کرلیا کرتے ہیں جیسا کہ خاکسار کے وزیراعلیٰ بننے کے اعلان سے پہلے ہی جملہ خیرمقدمی تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں اور یار لوگ حیران رہ گئے تھے کیونکہ میں اپنے نام کی نسبت سے علم نجوم میں بھی ماشاء اللہ خاصا درک رکھتا ہوں اور حساب لگانے پر پیش آنے والے واقعات کا پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے، چنانچہ میرا ارادہ ہے اس کام سے فارغ ہوتے ہی پیشین گوئیوں کا یہ نفع بخش کام شروع کردوں کیونکہ اس واقعے سے چاروں طرف میری دھاک تو بیٹھ ہی چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جذباتی فیصلہ نہیں کروں گا‘‘ کیونکہ وفورِجذبات کی کیفیت بھی اس منصب کی اطلاع ملنے تک ہی تھی جس کے فوراً بعد میں نارمل ہوگیا، اور، اللہ کا نام لے کر بینر وغیرہ لکھوانے شروع کردیئے اور دودن میں سارا کام مکمل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ چاہتا ہوں کہ ’’تفریحی سرگرمیاں بسنت، مشاعرے اور میلے وغیرہ منعقد ہوتے رہیں‘‘ اور ان مشاعروں میں مجھے بھی اپنا تازہ کلام سنانے کا موقعہ ملتا رہے کیونکہ آخر نجم کا تخلص کس لیے اختیار کررکھا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں راجہ ریاض کے گھر میڈیا اور آئی جی سے گفتگو کررہے تھے۔ شفاف الیکشن …؟ نگران وزیراعلیٰ کے اعلان کے مطابق پنجاب میں کم وبیش ساری بیوروکریسی یعنی ڈی سی او، ڈی پی اوسے لے کر پٹواری اور ایس ایچ اوز کے تبادلے کیے جائیں گے تاکہ الیکشن کو شفاف بنایا جاسکے حالانکہ دانستہ ایک ہائپ پیدا کردیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے کہ آئندہ حکومت نواز لیگ کی ہوگی جس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ پولیس، ایجنسیوں اور کمانڈوز سمیت سینکڑوں اہلکار ابھی تک شریف خاندان کی سکیورٹی پر مامور ہیں اور جس پر وزیراعلیٰ نے انہیں ہٹایا ہے اور نہ ہی یہ جاننے کا تردد کیا ہے کہ قانوناً وہ کتنے اہلکار اپنی سکیورٹی کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رپورٹ بھی ہے کہ پنجاب میں ابھی تک شہباز شریف کا ہی سکہ چل رہا ہے ۔ ان حالات میں ان تبادلوں سے رتی برابر بھی فرق پڑنے کا احتمال نہیں ہے کیونکہ جو افسر یا اہلکار جہاں بھی ہے وہ نوازلیگ ہی کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور جس سے انتخابات کی شفافیت کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اوپر سے امیدواروں کی سکروٹنی بھی ایک مذاق کی حیثیت اختیار کرگئی ہے کہ ابھی تک کسی بڑی مچھلی کو سکروٹنی کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں جبکہ ٹیکس چوری ، نادہندگی اور قرضوں کی معافی وغیرہ کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے اور بڑی مچھلیوں سے اس بارے پوچھ گچھ کا کوئی تکلف روا نہیں رکھا جارہا ہے حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر کو بھی چیف الیکشن کمشنر کی ہدایات کے باوجود ہٹایا نہیں گیا اور نہ ہی چیف الیکشن کمشنر نے اس پر کوئی مناسب ردعمل ظاہر کیا ہے یا کوئی سٹینڈ لیا ہے جبکہ صاحب موصوف کی کمزوریوں کے چرچے بھی روز بروز عام ہوتے جارہے ہیں۔ ڈائٹنگ …؟ اخباری اطلاع کے مطابق نواز لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کا وزن بڑھ گیا ہے اس لیے انہوں نے دوپہر کا کھانا ترک کردیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اگلی دوپہر کا کھانا بھی رات ہی کے کھانے کے ساتھ کھالیتے ہوں۔ ایک پٹھان کے بارے میں کسی نے اطلاع دی کہ وہ صوفی ہوگیا ہے۔ اس حیران کن خبر پر اس کے کچھ جاننے والے اسے ملنے اور موقعہ پر جاکر صورت حال کا اندازہ لگانے کے لیے ، جس پہاڑی پر وہ رہتا تھا، وہاں چلے گئے، وہ اس کے گھر کے قریب پہنچے ہی تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ موصوف کسی بات پر اپنے ملازم سے خفا ہوکر ہوائی فائرنگ کررہے ہیں۔ اس پر ان حضرات میں سے ایک بولے، ایک پٹھان اگر چاہے بھی تو کتنا صوفی ہوسکتا ہے ؟ سو، میاں صاحب، جنہیں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں، اگر چاہیں بھی تو کتنی ڈائٹنگ یا ایک وقت کے کھانے سے کتنا پرہیز کرسکتے ہیں ؟ہیں جی؟ باقاعدہ کھانا ویسے بھی ڈنر ہی ہوتا ہے اور ناشتے کے بعد دوپہر کو کوئی ہلکی پھلکی چیز ہی کھائی جاتی ہے۔ انگریز اسی طرح کرتے ہیں، اور، میاں صاحب تو لندن وغیرہ آتے جاتے ہی رہتے ہیں، جہاں ایک اطلاع کے مطابق مہنگے ترین علاقے میں انہوں نے متعدد گھر بھی خرید رکھے ہیں، اس لیے وہاں بھی یہی چلن نظر آیا ہوگا۔ تاہم، امید ہے کہ اس نازک صورت حال کا انہوں نے کوئی حل نکال ہی لیا ہوگا کہ مثلاً دوپہر کے کھانے کا متبادل کیا کیا ہوسکتا ہے ؟ آج کا مطلع نہ کوئی بات کہنی ہے ،نہ کوئی کام کرنا ہے اور، اس کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا ہے