میں کہیں لکھ چکا ہوں کہ تحریر خود اپنے آپ کو پڑھواتی ہے۔ اسے بیگار سمجھ کر نہیں پڑھا جا سکتا بلکہ یہ اپنے آپ پر لکھنے کے لیے بھی اُکستاتی ہے۔ تاہم سبھی تحریریں ظاہر ہے کہ ایسی نہیں ہوتیں۔ یہ افتخار خاص خاص تحریروں ہی کو حاصل ہے ۔پروفیسر عبداللہ بھٹی کی کتاب ’’فکر درویش‘‘ ایسی ہی کتابوں میں شامل ہے جو دینی اور روحانی مسائل پر تخلیق کی گئی ہے ۔بظاہر اس خشک موضوع کو اس حد تک قابل مطالعہ بنا دیا گیا ہے کہ مجھ جیسا نیم دہریہ شخص بھی اس سے باقاعدہ لطف لینے لگا۔ وما توفیقی الا باللہ اول تو میں ’’بابوں‘‘ میں یقین ہی نہیں رکھتا ۔دوسرے یہ کہ عمر کے جس حصے میں ہوں، اپنے آپ کو تبدیل کرتے ہوئے ان موضوعات میں دلچسپی لینا میرے لیے بہت مشکل تھا جن سے میں نے عمر بھر اجتناب کیا کیونکہ ایک تو میرا میدان ہی اور تھا اور دوسرے کچھ باتیں ذہن میں راسخ ہوچکی تھیں جن میں کسی ردو بدل کی بظاہر کوئی گنجائش نہیں ۔اور پھر یہ بھی تھا کہ ؎ عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں، مومنؔ آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے لیکن پروفیسر صاحب کی تحریروں سے گزرنے کے بعد یہ انگریزی قول بہت درست لگا کہ You are never too late زندگی میں کسی انقلاب کی راہ کسی وقت بھی کھل سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی سوچ کے اندر ایک ایسی لچک کا اہتمام کیا ہے کہ جو اس کا رخ کسی وقت کسی جانب بھی موڑ سکتی ہے۔ پچھلے دنوں میں اوکاڑے گیا تو میرے بیٹے اویس اقبال نے مجھے پروفیسر صاحب کی پہلی کتاب پڑھنے کو دی۔ پروفیسر صاحب کا فون نمبر اور رہائش گاہ کا پتہ بھی بتایا اور کہا کہ آپ ان کے نیاز ضرور حاصل کریں۔ کتاب پڑھنے کے بعد خود بخود اشتیاق پیدا ہوا اور میں نے واپس آ کر انہیں فون کیا جو کسی نے نہیں اٹھایا۔ ایس ایم ایس کیا کہ میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ جوابی، ایس ایم ایس میں فرمایا کہ میں جلد ہی اس کی اطلاع آپ کو دوں گا۔ کچھ یہ مجھے غائبانہ جانتے بھی تھے۔ پھر فون آیا کہ میں خود حاضر ہوں گا، جس پر عرض کیا کہ آپ مجھے شرمندہ اور گناہ گار کررہے ہیں لیکن بضد رہے اور جو وقت اور دن مقرر کیا، اس کے عین مطابق تشریف لے آئے۔ دروازے پر گھنٹی دی تو میرا ڈرائیور ایک پینٹ پتلون پوش نوجوان کو اندر لے آیا اور میں منتظر رہا کہ بزرگ خود بھی آرہے ہوں گے ،لیکن بتایا کہ عبداللہ بھٹی میں ہی ہوں! پورا ایک گھنٹہ بیٹھے رہے اور چائے وغیرہ سے بھی سختی سے منع کردیا۔ کتاب ’’فکر درویش‘‘ کا مسودہ مرحمت کیا تاکہ میں اسے ایک نظر دیکھ لوں۔ جس طرح کی بات چیت ہوئی اس کا احوال عطاء الحق قاسمی، حسن نثار، حامد میر اور دیگر حضرات اپنی اپنی تحریوں میں بیان کر چکے ہیں، اسے دہرانا ضروری نہیں ۔وہ جس دلنشیں لہجے میں گفتگو کرتے رہے ، اس کی بابت بھی کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ستم بالائے ستم یہ رہا کہ اٹھتے ہوئے کہہ گئے کہ کچھ دنوں کے بعد پھر حاضر ہوں گا۔ میں نے عرض کی کہ مجھے زیادہ شرمسار نہ کریں اور مجھے دردولت پر حاضر ہونے کا موقع دیں، لیکن فرمایا کہ وہاں رش بہت ہوتا ہے، آپ کو بہت مشکل پیش آئے گی اس لیے میں ہی آتا جاتا رہوں گا۔ میرے قدر دان یوں تو الحمدللہ بہت ہیں لیکن اس طرح کے قدر دان کے بارے میں ،میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ اس کتاب کا پہلا اور غالب حصہ تصوف اور صوفی کی تعریف کے بارے میں ہے جس میں صاحب موصوف نے اپنی رائے دینے سے حتی الامکان گریز کیا ہے اور مشہور و معروف دینی شخصیات کی تحریریں ان کی کتابوں سے نقل کی ہیں جن میں مسلمہ اولیائے کرام بھی شامل ہیں۔ اس بحث میں جو چشم کشا بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ تصوف ،شریعت اور سنت رسول ؐ ہی پر عمل کرنے کی ایک صورت ہے جس کے بغیر تصوف اور صوفی کی ہر تعریف غلط اور باطل ہے۔ اس طرح تصوف کے بارے میں پھیلایا ہوا یہ مغالطہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے کہ تصوف خدانخواستہ اسلام کے ساتھ ساتھ ایک متوازی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ کتاب کا باقی حصہ ان کی تقاریر پر مشتمل ہے جو تشنگان علم و فکر کے سامنے انہوں نے وقتاً فوقتاً ارشاد فرمائیں اور جن میں حاضرین کے سوالات اور ان کے مدلل جوابات بجائے خود رہنمائی کا ایک ٹھوس کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ان کا طرز بیان اس قدر آسان فہم اور سلاست سے معمور ہے کہ بات سنتے ہی دلنشیں ہوتی جاتی ہے۔تندوترش سوالات کا جواب بھی اس دلآویز طریقے سے دیتے ہیں کہ ان کی محفل سے لوگوں کا اٹھنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ ایسی محفل مہینے میں بار ضرور جمائی جاتی ہے۔ تصوف والے مضمون اور گفتگو والے حصے میں جن بزرگوں اور کتابوں کے حوالے اور اقتباسات دیئے گئے ہیں ان سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس ضمن میں کس قدر وسیع المطالعہ واقع ہوئے ہیں ۔ہر بات کا جواب دلیل سے دینے کا ان کا ایک اپنا ہی انداز ہے اور مجھ جیسے کمزور ایمان والوں کو ان کی محفلوں اور گفتگو سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے ماضی کے واقعات اور مثالوں سے واضح اور ثابت کیا ہے کہ مطالعہ اور عبادات کے ساتھ ساتھ کسی مرشد کامل کی دستگیری بھی ضروری ہوتی ہے جس کی تلاش جاری رکھنی چاہیے یہاں تک کہ طالب کو اس تک رسائی حاصل ہو جائے۔ دراصل یہ روحانیات کا سفر ہے جو کسی حقیقی رہبر کے بغیر طے کیا ہی نہیں جاسکتا۔ انہوں نے مثالوں سے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی اولیائے کرام اور ایسے پہنچے ہوئے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے اصلاح خلق کے لیے یادگار کارنامے سر انجام دیئے حتیٰ کہ مسیحی، یہود ی اور اہل ہنود میں بھی ایسی ہستیاں گزری ہیں جن کا معتبر صحیفوں میں باقاعدہ اور تفصیل کے ساتھ تذکرہ ملتا ہے اور ان سے منسوب متعدد کرامات کا ذکر بھی موجود ہے ۔ان کا اہل مغرب نے بھی لکھ کر اعتراف کیا ہے ۔ غرض اس مسودے سے گزرنے کے دوران ذہن اور دل میں ایسے ایسے دریچے کھلتے جاتے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ روحانیات کا تعلق دماغ کے ساتھ نہیں بلکہ براہ راست دل کے ساتھ ہے ۔یہی بات فارسی کے عظیم شاعر حضرت بیدل ؔدہلوی کس خوبصورتی سے کہہ گئے ہیں ؎ ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیرِ سرووسمن درآ تو زغنچہ کم نہ کشودہ ای درِ دل کُشا بچمن درآ بعض باتیں پڑھ کر تو آدمی کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار موسیٰ علیہ السلام نے اللہ میاں سے کہا کہ اہل یہود میرے خلاف بہت باتیں کرتے ہیں، آپ ان کے منہ بند کردیں۔ اللہ میاں نے جواب دیا کہ یہ میرے خلاف بھی بہت باتیں کرتے ہیں، اگر میں نے اپنے لیے ان کے منہ بند نہیں کیے تو تمہارے لیے کیسے کرسکتا ہوں۔ اس کے اندر آزادی اظہار رائے کا جو سنہری اصول پوشیدہ ہے، اسے خود اللہ تعالیٰ کی تصدیق حاصل ہے۔ حضرت امام بریؒ کے حوالے سے درج ہے کہ ایک بار میں جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھا تو بہت فقیروں نے مجھے گھیر لیا۔ میں نے سب کو دیا لیکن ایک فقیر چند قدم چلنے کے بعد دوبارہ سامنے آیا ،اس نے پھر مانگا۔ میں نے کہا، یار میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہیں دیا ہے جس پر اس نے گہری نظر سے میری طرف دیکھا اور کہا، تم خود تو اپنے سائیں سے بار بار مانگتے ہو اور مجھے دوسری مرتبہ دینے سے بھی کترا رہے ہو۔ میں اس کی طرف دیکھے جارہا تھا تو اس نے پھر کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں بار بار ملے تو دیتے وقت باریاں نہ گنا کرو! آج کا مقطع مجھے بھی رزق مل جاتا ہے اکثر میرے حصے کا وہ کیڑا ہوں‘ ظفرؔ‘ جو پیار کے پتھر میں رہتا ہے