عوام کو کوئی بیوقوف نہیں بناسکتا …نوازشریف کامریڈ نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’تبدیلی کے جھوٹے نعروں سے عوام کو کوئی بیوقوف نہیں بناسکتا ‘‘ حتیٰ کہ ہم بھی نہیں بناسکتے کیونکہ پیپلزپارٹی والوں کی طرح ہمارا پول بھی کھل چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کو اندھیروں سے نکالنے کا عزم لے کر میدان میں اتریں گے ‘‘ کیونکہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر ملک میں اندھیرے پھیلانے والوں میں ہم بھی شامل تھے اس لیے اندھیروں سے نکالنے کی توقع بھی ہم سے کی جاسکتی ہے کیونکہ اندھیروں کی پہچان ہمارے سوا اور کس کو ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات کو ملتوی کرانے کی سازشیں اب بھی ہورہی ہیں‘‘ جو دراصل میرا کمبل ہی چرانے کے لیے ہیں کیونکہ اب تو ہم نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پرانے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے‘‘ اور، امیرالمومنین والا پروگرام ہی سب سے بہتر ہوسکتا ہے جس کے لیے ہم جدوجہد کررہے ہیں اور پہلے کی طرح اسے سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہیں جی؟انہوں نے کہا کہ ’’عوام نے ہاتھ مضبوط کیے تو مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پالیں گے‘‘ بصورت دیگر آہنی ہاتھوں کا بھی بندوبست کرلیا ہے اور اتفاق سٹیل مل کو اس کا آرڈر دے دیا گیا ہے جبکہ اس سلسلے میں میرے عاشق زار نگران وزیرداخلہ بھی کافی تعاون کریں گے۔ دشمنوں نے جن کی برخواستگی کے لیے واویلا شروع کردیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ترک سفیر اور ممتاز تارڑ سے گفتگو کررہے تھے۔ انتخابی انتظامات پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقعہ نہیں ملے گا…کھوسو نگران وزیراعظم میرہزار خاں کھوسو نے کہا ہے کہ ’’الیکشن کے ایسے انتظامات کریں گے کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقعہ نہیں ملے گا‘‘ لیکن کسی کو فضول انگلی اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دیں گے جیسا کہ نگران وزیر داخلہ پر اٹھائی جارہی ہے جو اپنی عاشقی سے مجبور ہوکر میاں صاحب کے حق میں بیان دے رہے ہیں کیونکہ عشق سے بڑی مجبوری اور کوئی نہیں ہوسکتی، اگرچہ الیکشن کمیشن نے بھی ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، تاہم ، میاں صاحب کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاسکتا اور ہم جبکہ سارے کے سارے پیپلزپارٹی کے عشق میں مبتلا ہیں تو میاں صاحب کے اکلوتے عاشق کو بھی برداشت کرلینا چاہیے، ویسے بھی ، انگلیاں اٹھانے کے لیے نہیں بلکہ گھی نکالنے کے لیے ہوتی ہیں جیسا کہ سابق حکمرانوں میں سب کی انگلیاں ٹیڑھی تھیںاور وہ بڑی صفائی سے سارا گھی نکال لے جانے میں کامیاب ہوگئے اور قوم دیکھتی کی دیکھتی ہی رہ گئی لیکن افسوس کہ ہماری انگلیاں سیدھی ہیں اور کوشش کرنے کے باوجود ٹیڑھی نہیں ہوسکتیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ووٹروں کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں ‘‘ اگرچہ پولیس اور کمانڈوز وغیرہ کی تقریباً ساری نفری میاں صاحبان کے تحفظ پر مامور ہے، اس لیے ووٹروں کو اپنے تحفظ کا انتظام خود کرنا چاہیے کیونکہ خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنے پر آمادہ ہوں۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں محمود اچکزئی اور دیگران سے باتیں کررہے تھے۔ عوامی خواہشات پر ہمیشہ کی طرح پورا اتریں گے …زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’عوامی خواہشات پر ہمیشہ کی طرح پورا اتریں گے ‘‘ جبکہ یہ مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ بھی عوامی خواہشات کے مطابق ہی تھوک کے حساب سے مہیا کی گئی ہیں کیونکہ ہمارے عوام تساہل پسند نہیں بلکہ انتہائی جفاکش واقع ہوئے ہیں جبکہ ہماری پوری ٹیم نے بھی انتہائی جفاکشی سے ہی دانہ دانہ جمع کرکے خرمن اکٹھا کیا ہے اور اسی وجہ سے بجلی اور گیس وغیرہ کی کمی عوامی خواہشات پر روشناس کرائی گئیں کیونکہ ان اداروں کو دینے کے لیے پیسہ ہی نہیں بچا تھا جس میں سابق وزرائے اعظم کی کار کردگی انتہائی مثالی اور شاندار رہی جبکہ بیوروکریسی سمیت دیگر حضرات نے بھی اس عوامی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’11مئی کو شفاف انتخابات کے انعقاد سے تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوگا‘‘ اگرچہ ہم مختلف شعبوں میں اس طرح کے باب پہلے ہی کافی بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی رقم کرچکے ہیں اور مزید کی گنجائش نہیں تھی تاہم ، ایک یہ بھی سہی۔ انہوں نے کہا کہ ’’پنجاب میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے‘‘ کیونکہ سندھ میں قائم علی شاہ کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کرنے والے وکیل کی پٹائی سے اس شفافیت کا ثبوت پہلے ہی مہیا ہوچکا ہے، بقایا کسر برادرم ٹپی شاہ حسب توفیق پوری کردیں گے، آپ اگلے روز اسلام آباد میں گورنر احمد محمود اور نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی سے ملاقات کررہے تھے۔ سیاسی رہنمائوں کی سکیورٹی فول پروف بنائی جائے …وزیر داخلہ نگران وزیرداخلہ ملک حبیب نے کہا ہے کہ ’’سیاسی رہنمائوں کی سکیورٹی فول پروف بنائی جائے‘‘ کیونکہ اگر شریف برادران کا بال بھی بیکا ہوگیا تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ’’قانون شکن عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے ‘‘ اگرچہ یہ عناصر پہلے ہی ہمارے اختیار سے باہر ہیں، اس لیے انہیں اجتماعی بددعائیں دینے کا بھی انتظام کیا جارہا ہے جس میں دینی سیاسی جماعتیں بھرپور حصہ لے سکتی ہیں کیونکہ جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی وغیرہ نواز لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہوسکنے کی وجہ سے پہلے ہی فارغ ہیں اور اس نیک مقصد کے لیے کافی وقت نکال سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسلام آباد میں شیشہ سموکنگ کی کسی کو اجازت نہ دی جائے ‘‘ تاکہ تما م خواتین وحضرات چاق و چوبند رہ کر نواز لیگ کے حق میں میری طرح ووٹ ڈال سکیں اور مجھے ان سے سرخرو ہونے کا موقعہ ملے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ریستورانوں میں بھی شیشے کا استعمال روکا جائے‘‘ اگرچہ اس کا شفاف انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم، وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پولیس سربراہان کو ہدایات دے رہے تھے۔ حیرانی اور پریشانی اگر ہمارے کرمفرما میاں نواز شریف اس بات پر حیران ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پتہ نہیں مشرف کو سیاست کا مشورہ کس نے دیا تو دوسری طرف ان کی حریف جماعتیں اس بات پر اپنی لاعلمی اور حیرت کا اظہار کررہی ہیں کہ مشرف کے بارے میں میاں صاحب نے اب خاموشی کیوں اختیار کرلی ہے اور ایک دم موصوف کے لیے ان کے دل میں نرم گوشہ کیونکر پیدا ہوگیا ہے۔ میاں صاحب کے خیال کے مطابق مشرف کو صرف عدالتوں میں قتل اور غداری وغیرہ کے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے ہی پاکستان واپس آنا چاہیے تھا جو وہ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ کر بھی رہے ہیں اور اسی لیے میاں صاحب مرے کو مارے شاہ مدار، کے طعنے سے بچنے کے لیے مشرف کے خلاف کارروائی پر زور نہیں دے رہے جبکہ فالتو زور لگانے کے وہ ویسے بھی حق میں نہیں ہیں کیونکہ وہ سارا زور الیکشن کے بعد چھوٹے بھائی آصف علی زرداری کے ساتھ اتحاد بنانے پر صرف کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں تاکہ عمران خان کی نام نہاد تبدیلی سے بچا جاسکے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں جو دودھ اور شہد کی نہریں ان دونوں حضرات نے بہارکھی ہیں، اس کے پیش نظر کسی اور تبدیلی کا تو یہ ملک متحمل ہی نہیں ہوسکتا جبکہ مولانا فضل الرحمن نے بھی دونوں کے اسی دلی تعاون کی تصدیق کردی ہے، اس لیے عوام کو شفاف انتخابات کا بے صبری سے انتظار کرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ ۔ آج کا مقطع بوسۂ چشم کا ہوں قرض اٹھانے کو، ظفرؔ تاکہ جو رہ گئی ہے اس کی ادائی میں گزر جائے