نام تو خاصا غیرشاعرانہ ہے لیکن شاعری حیران کن بھی ہے اور پریشان کن بھی ۔ اس لیے کہ اس کے ہاں عمدہ اشعار کی تعداد اس حدتک خوشگوار ہے جو جدید غزل پر قاری کا ایمان بحال کرنے کے لیے کافی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ غزل میں جدید طرز احساس کا ایک واضح تماشا جابجا نظرآنے لگا ہے ۔ اکا دکا شعر کے شاعرتو ہمارے ہاں مل ہی جاتے ہیں لیکن چونکا دینے والے اشعار ، اور وہ بھی اتنی فراوانی کے ساتھ، ایسی مثالیں پوری اردو غزل میں بہت کم ہی دستیاب ہیں۔ اس کے چند شعر دیکھیے: یہ سرابوں کی شرارت بھی نہ ہو تو کیا ہو آنکھ میں حیرت و وحشت بھی نہ ہو تو کیا ہو ہم کہ اس ہجر کے صحرا میں پڑے ہیں کب سے خیمۂ خوابِ رفاقت بھی نہ ہو تو کیا ہو میں وہ محرومِ زمانہ کہ کبھی سوچتا ہوں سانس لینے کی سہولت بھی نہ ہو تو کیا ہو مجھے قرنوں میں سوچتا ہوا تو تجھے صدیوں میں ڈھونڈتا ہوا میں ہوگئے اب جدا تو کیا کیجے تھے خطا کار بیش وکم دونوں جب ملیں گے تو بھول جائیں گے جوابھی سوچتے ہیں ہم دونوں دفعتاً سامنا ہوا اپنا جی اٹھے جیسے ایک دم دونوں کہاں زمیں کے ضعیف زینے پہ چل رہی ہے یہ رات صدیوں سے میرے سینے پہ چل رہی ہے خمارِ خوابِ سحر، یہ دل اور تیری یادیں ہوا دبے پائوں آبگینے پہ چل رہی ہے کراہتا ہے سرِراہ درد سے کوئی مگر مجھے بھی تو جلدی سے گھر پہنچنا ہے ہمارا کیا ہے کدھر جائیں اور کب جائیں نکل پڑو کہ تمہیں وقت پر پہنچنا ہے تم نے اچھا ہی کیا چھوڑ گئے ، ویسے بھی ایک سائے سے بھلا کیسے سنبھلتا سایہ میں نے اس واسطے منہ کر لیا سورج کی طرف مجھ سے دیکھا نہ گیا آگے نکلتا سایہ مجھ کو جس رات سمندر نے اتارا خود میں میں نے اس رات بھی ساحل کی طرفداری کی بس ایک موج آئی اور قطار سے نکل گئے کسی شمار میں نہ تھے‘ غبار سے نکل گئے نظر وہ ہم سے پھر گئی تو کچھ گلہ نہیں کیا بہت ہوا تو ہوکے شرمسار سے نکل گئے میراسب کچھ تھا صرف ایک سوال اور اس کا جواب کچھ بھی نہ تھا سانس تک تو گنے چنے ہوئے تھے کچھ نہ تھا بے حساب کچھ بھی نہ تھا اک دیئے سے کوشش کی دوسرا جلانے کی اور اس عمل میں پھر وہ بھی بجھ گیا مجھ سے راہ کا شجر ہوں میں‘ اور اک مسافر تو دے کوئی دعا مجھ کو ، لے کوئی دعا مجھ سے میں نے دیکھا ہے کہ بیس شعر کسی بھی مجموعۂ غزل سے بہت کم ہی نکلتے ہیں جو اس شاعری کی نصف سے بھی کم غزلوں سے میں نے نکالے ہیں جو اس نے مجھے رائے حاصل کرنے کے لیے بھجوائی تھیں۔ لگتا ہے کہ ابھی وہاں اور بہت مال پڑا ہے ۔’’ہجرت وہجر‘‘ اس کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے کیونکہ اگر اس سے پہلے کوئی ہو بھی تو میری نظر سے نہیں گزرا ۔ البتہ چند ماہ پہلے میں نے اس کی ایک خوبصورت غزل اپنے کالم میں ضرور نقل کی تھی جو خالد احمد مرحوم کے ماہنامہ ’’بیاض‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ کچھ لوگ ناراض ہیں کہ میں اپنے تبصرے میں ان کی تعریف نہیں کرتا حالانکہ میں جن کی تعریف کرتا ہوں وہ میرے رشتے دار ہرگز نہیں ہوتے۔ انجیل مقدس کا قول مبارک ہے کہ خدا کا خدا کو دو اور قیصر کا قیصر کو دو۔ یعنی جو جس کا حق بنتا ہے اسے ضرور دو۔ بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق شیطان کو بھی اس کا حصہ ادا کرو جس کا وہ مستحق ہے ورنہ آپ ظلم کے مرتکب ہوں گے کیونکہ لفظ ظلم کے لغوی معنی ہی یہ ہیں کہ کسی چیز کو ایسی جگہ رکھ دیا جائے جہاں وہ رکھنے کے قابل نہ ہو!اس لیے میں تو خداسے ڈرنے والا آدمی ہوں ، ظلم کا مرتکب کیسے ہوسکتا ہوں۔ بلکہ جو شاعری نہیں ہوتی میں اپنی عقل اور بساط کے مطابق اس کی نشاندہی کرتا ہوں کہ یہ شاعری نہیں، محض موزوں گوئی ہے ، تاکہ شاعر اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے اور بس، مجھے نہیں یاد کہ میں نے اپنے تبصرے میں کسی شاعر کے اتنے اشعار نقل کیے ہوں ماسوائے اکبر معصومؔ کے ، جس کی کتاب پر لکھتے ہوئے میں نے اس کے چالیس شعر نقل کیے تھے۔ سجاد بلوچ چارپانچ سال تک دوبئی میں ایک انتظامی منصب پر رہے ہیں اور اب واپس آکر ٹیکسلا میں اپنی ٹریولنگ ایجنسی چلا رہے ہیں۔ اس پیشے کا رفتار سے چونکہ بنیادی تعلق ہے، اور امید کی جاسکتی ہے کہ اگر سجاد بلوچ اتنے عمدہ شعر کہنے کی رفتار کو بھی برقرار رکھ سکے تو یہ غزل کی مرتی ہوئی صنف کو ایک طرح سے نئی زندگی دینے کے مترادف ہوگا اور اب یہ تعریف کے علاوہ میری دعائوں کا بھی حقدار ہوگیا ہے کہ محبت کی شاعری میں ایسے خوبصورت اشعار نکال لینا واقعی ایک کارنامہ ہے کیونکہ یہ موضوع غزل میں اس قدر پٹ چکا ہے کہ بظاہر اس کی مزید گنجائش کا باقی رہنا مشکوک ہوگیا تھا۔ آج کا مطلع میرے دل میں محبت بہت ہے اور ، محبت میں طاقت بہت ہے