معزز بیگمات! آپ کا اصرار تو تھا ہی، اب کئی شوہرانِ کرام نے بھی ہم پر زور دینا شروع کردیا ہے کہ ہماری بیگمات کا صفحہ کیوں شائع نہیں کیا جاتا‘ بلکہ کئی حضرات نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ان کے لیے رہائش کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ بیگمات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عام بیویوں کا صفحہ اگر چھپ سکتا ہے تو ان کا کیوں نہیں جبکہ وہ عام بیویاں بھی ہرگز نہیں ہوتیں۔ علاوہ ازیں ہمارا اپنا ضمیر بھی ہمیں ایک عرصے سے اس ضمن میں ملامت کررہا تھا۔ حتیٰ کہ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس صفحے کا اجرا کیا جارہا ہے۔ اس سے جہاں بیگمات کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگا وہاں ان کے گونا گوں مسائل کی نشاندہی ہونے کے علاوہ ان کا کوئی حل نکلنے کی صورت بھی پیدا ہوتی رہے گی جبکہ امید ہے کہ یہ صفحہ شوہر حضرات کو بھی پسند آئے گا جنہیں اپنی اور بعض اوقات دوسروں کی بیگمات کی خاطر بھی مطلوب رہا کرتی ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی قیمتی رائے کا ہمیں انتظار رہے گا۔ دعائوں میں یاد رکھیے گا۔ سبق آموز واقعات ٭ رات کے وقت بیگم کو کھانسی آئی تو میاں بولے‘ آپ کے گلے کے لیے کچھ لائوں؟ جس پر بیگم بولیں۔ ہاں‘ وہ اگلے روز جیولر کے ہاں جو جڑائو ہار میں نے پسند کیا تھا‘وہی لے آئیں۔ ٭قبائلی سردار شادی کے بعد اپنی بیگم کو گھوڑی پر بٹھا کر گھر لے جارہا تھا۔ راستہ پتھریلا اور دشوار گزار تھا۔ چلتے چلتے گھوڑی نے ٹھوکری کھائی تو سردار بولا‘ پہلی غلطی! کچھ آگے جا کر گھوڑی نے پھر ٹھوکر کھائی تو سردار نے کہا‘ دوسری غلطی! کوئی سو پچاس قدم چلنے کے بعد گھوڑی نے جب پھر ٹھوکر کھائی تو سردار گھوڑی سے اترا، بیگم کو اتارا، پستول نکال کر گھوڑی کی کنپٹی پر رکھا اور فائر کردیا‘ جس پر بیگم بولی کس قدر ظالم ہو تم! سردار نے جواب دیا، پہلی غلطی! ٭ایک امیر خاتون کے خاوند کا انتقال ہوگیا تو اس نے دوسری شادی کرلی۔ کچھ عرصے کے بعد وہ بیمار ہو کر چل بسا۔ اس نے کچھ عرصے کے بعد تیسری شادی رچائی تو اس کا میاں ایک حادثے کی نذر ہوگیا جس پر اس نے آسمان کی طرف منہ کرکے کہا۔ اللہ میاں! شادی تو میں اور بھی کر لوں گی لیکن تمہاری نیکیاں بھی مجھے یاد ہی رہیں گی! ٭ایک فربہ خاتون بالکونی میں بیٹھی بازار کا نظارہ کررہی تھیں کہ بیلنس خراب ہوا اور وہ نیچے آرہیں‘ تیسرے دن ہسپتال میں انہیں ہوش آیا تو انہوں نے نرس سے پوچھا‘ کیا میں زندہ ہوں؟ نرس نے کہا کہ آپ تو زندہ ہیں لیکن جن تین لوگوں پر آپ گری تھیں‘ وہ اسی وقت اللہ کو پیارے ہوگئے تھے! ٭ایک صاحب کی گاڑی میں کوئی نقص پڑ گیا تو انہوں نے گاڑی اپنی بیگم کے ہاتھ مکینک کے پاس بھجوائی۔ جب اس کا بل آیا تو اس نے مکینک کو فون کیا کہ نقص تو معمولی تھا لیکن بل کیوں اتنا زیادہ ہے؟ جس پر مکینک نے جواب دیا کہ اس میں ہمارے گیٹ کی مرمت کا بل بھی شامل ہے جس میں آتے ہوئے بیگم صاحبہ نے گاڑی مار دی تھی! اقوالِ زرّیں ٭درخت ایک ایسی چیز ہے جو سالہا سال تک ایک جگہ کھڑا رہتا ہے لیکن ایک دن اچانک اچھل کر کسی خاتون ڈرائیور کے سامنے آجاتا ہے۔ ٭ایک خاتون لکھتی ہیں کہ بیس سال تک میری ساس کے ساتھ میرے تعلقات بہت اچھے رہے، اس کے بعد میری اس سے ملاقات ہوگئی! ٭ بعض مردوں کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ زن مرید ہیں لیکن کسی عورت کے بارے میں کبھی نہیں سنا کہ وہ شوہر مرید ہے! ٭کام پر یا دفتر بھیجتے وقت خاوند کو اللہ کے سپرد ضرور کریں لیکن یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کرتی رہیں کہ وہ دن بھر کرتا کیا ہے؟ ٭خاوند کو زدوکوب کرتے وقت یہ خیال رکھیں کہ وہ زخمی نہ ہو‘ ورنہ اس کے دوست اور جاننے والے پوچھ پوچھ کر اس کا جینا حرام کردیں گے‘ بلکہ گجھی مار کو ترجیح دیں! ٭لڑائی جھگڑے کے دوران شوہر سے کہیں کہ آپ کو کرایہ دے دے، آپ اپنے میکے جائیں گی۔ وہ کرایہ دے دے تو جانا موقوف کردیں۔ اس طرح بھی کچھ رقم جمع کی جاسکتی ہے! ٭خاوند کو بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اگر وہ صحیح معنوں میں خاوند ہے تو پہلے ہی کافی بیوقوف ہوگا۔ ایڈیٹر کی ڈاک مکرمی! میں یہ بات آپ کے نوٹس میں لارہی ہوں کہ کچھ شرپسندوں نے شہر میں ایک نام نہاد ’’انجمن تحفظ حقوق شوہراں‘‘ قائم کر رکھی ہے جو خواتین کے حقوق میں کھلی مداخلت ہے۔ اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ رات گئے تک گھر سے باہر رہنے والے شوہر کی اگر چھترول نہ کی جائے تو کیا اسے گھر آنے پر پھولوں کے ہار پہنائے جائیں؟ کیونکہ صرف مرغا بنانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بار بار مرغا بننے کے بعد تو وہ نہ صرف اس کے عادی ہوجاتے ہیں بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ تاہم اس دوران اگر ان کے اوپر بیٹھ جایا جائے اور جب تک وہ بانگیں نہ دینے لگ جائیں‘ اس وقت تک یہ مشق جاری رہنی چاہیے۔ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ بچوں کے ساتھ شوہروں کی اصلاح کی بھی خواتین کے فرائض میں شامل ہے اور جب تک یہ فرض مکمل اور سبق آموز حد تک پورا نہ کیا جائے‘ یہ معاشرہ ہرگز ترقی نہیں کرسکتا جبکہ کسی معاشرے کی ترقی میں عورتوں کے کردار سے ہرگز چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ (زبردست خانم، گارڈن ٹائون، لاہور) آج کا مقطع شادی کروا کر بھی ظفرؔ وہی چھڑے کا چھڑا رہا