نگران حکومت میں ایک دن کی بھی توسیع نہیں کریں گے…کھوسو نگران وزیراعظم میرہزارخان کھوسو نے کہا ہے کہ ’’نگران حکومت میں ایک دن کی بھی توسیع قبول نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ ایک دن کی توسیع تو ہمارے ساتھ مذاق ہی ہوگا، البتہ مہینوں اور برسوں کی الگ بات ہے، اور جہاں تک ہمارے قبول کرنے، نہ کرنے کا سوال ہے تو مجھ میں اگر قبول نہ کرنے کی ہمت ہوتی تو وزیراعظم بننے سے ہی انکار کردیتا ورنہ اس عمر میں اس طرح کی ذمہ داری سنبھالنا بجائے خود کوئی کم مضحکہ خیز بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کوشش ہے ووٹ کا تقدس برقرار رہے‘‘ جیسا کہ سابقہ حکومت گڈگورننس قائم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور محض قضائے الٰہی سے اس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ ’’شفاف الیکشن میں سرخروہوں گے‘‘ کیونکہ دھماکوں اور دیگر ذرائع سے پہلے ہی اتنا خون بہایا جاچکا ہے کہ اس سے الیکشن افسوسناک حدتک ’’سرخ رو‘‘ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگلی حکومت کو بہتر معیشت دیں گے‘‘ جس کے لیے وزیر خزانہ کی تلاش پورے زوروشور سے جاری ہے اور امید ہے کہ الیکشن سے پہلے پہلے دستیاب ہوجائے گا۔ آپ اگلے روز ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر قوم سے خطاب کررہے تھے۔ زرداری نواز شریف پارٹنر شپ توڑ دیں گے…عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’زرداری نواز شریف پارٹنر شپ توڑ دیں گے‘‘ اور چونکہ پارٹنر شپ توڑنے کے لیے ایک ہی بیٹسمین کوآئوٹ کرنا ضروری ہوتا ہے اس لیے زرداری کو آئوٹ کرنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ وہ تو ہمارے ہی لیے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’17سال سے بڑے میچ کا انتظار تھا‘‘ اور دھماکوں کی بارش نے میچ ملتوی یا منسوخ نہ کرادیا تو ہم اپنا کرتب ضرور دکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سونامی کو روکنا اب کسی کے بس میں نہیں‘‘ اور سونامیوں کے ذریعے جوتباہی قسمت میں لکھی ہوتی ہے وہ آکر ہی رہتی ہے اور اسی لیے اب تک کسی بھی سونامی کو اب تک روکا نہیں جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کو تباہ کرنے والے اسے واپس ٹھیک نہیں کرسکے۔‘‘ اس لیے ہمیں موقعہ دیا جائے تاکہ ہم ثابت کرسکیں کہ ہم اسے تباہ کرکے واپس ٹھیک بھی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’نوجوان تیار رہیں، سنہری دور آنے والا ہے‘‘ اگرچہ ووٹ دے کر وہ خود تو فارغ ہوجائیں گے، البتہ اس سنہری دور سے ہم ہی اچھی طرح سے نمٹیں گے جیسا کہ یہاں کے حکمرانوں کی درخشندہ روایات کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم شیر کا شکار کرنے نکلے ہیں‘‘ لیکن ہمیں محتاط بھی رہنا ہوگا کیونکہ اس کم بخت کو خود شکار کرنے کی بہت بڑی عادت ہے۔ آپ اگلے روز مانسہرہ، بٹگرام، اوگی اور ہری پور میں جلسوں سے خطاب کررہے تھے۔ قوم سے سوچ سمجھ کر باتیں کرتا ہوں …نوازشریف میاں نواز شریف نے کہا کہ ’’قوم سے سوچ سمجھ کر باتیں کرتا ہوں‘‘ البتہ دیگر کام سوچے سمجھے بغیر ہی سرانجام دے لیا کرتا ہوں کیونکہ ان کا موں کے بعد بھی سوچنے سمجھنے کے لیے کافی وقت ہوتا ہے، ویسے بھی، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا بے دریغ استعمال بھی نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ اس طرح کی فضول خرچی سے یہ صلاحیت کم بھی ہوجایا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قوم 18,18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کررہی ہے‘‘ اور جس کا مطلب ہے کہ وہ اس کی عادی ہوگئی ہے، اس لیے ہم اگر اقتدار میں آئے تو 24,24گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا بھی تجربہ کرکے دیکھیں گے اور امید ہے کہ قوم جفاکشی کے اس امتحان میں بھی پورا اترے گی، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’آئندہ ہم اقتدار میں آئے تو کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلائیں گے ‘‘ اگرچہ بلٹ تو پہلے ہی کافی چل رہی ہے، ٹرین ہم اس کے ساتھ لگادیں گے بشرطیکہ ڈیزل وغیرہ افراط سے دستیاب ہوتا رہا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ چھوٹے چھوٹے سیاستدان عوام کو گمراہ کررہے ہیں‘‘ حالانکہ یہ بڑے سیاستدانوں کا کام ہے، انہوں نے کہا کہ ’’غریب آدمی قرض وقت پر ادا کرتا ہے‘‘ جب کہ امیر آدمی یا تو ماشاء اللہ قرض معاف کرالیتا ہے یا ڈیفالٹر ہونے کی صورت میں عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرلیتا ہے جو سالہا سال تک لٹکا رہتا ہے ۔ آپ اگلے روز ملتان اور کوٹ ادو میں جلسوں سے خطاب کررہے تھے۔ شہر میں بلے نے شیر کو آگے لگارکھا ہے …منظور وٹو سابق وفاقی وزیر اور پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے کہا ہے کہ ’’شہر میں بلے نے شیر کو آگے لگا رکھا ہے‘‘ دراصل تو یہ ہمارا کام تھا لیکن ہم ذرا بیمار شیمار رہے ہیں اس لیے بدن میں کافی کمزوری آگئی ہے جس سے شیر کو آگے نہیں لگا سکے تاہم بلا بھی ہمارا ہی کام کررہا ہے اور ہماری بھرپور دعائیں بھی اسے حاصل ہیں، اس لیے یہی سمجھا جائے کہ تیر یعنی ہم نے ہی شیر آگے لگایا ہو ا ہے، اگرچہ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ بلا کامیاب ہوکر ہمیں ہی نہ آگے لگانا شروع کردے اور ہماری مفاہمت کی پالیسی دھری کی دھری رہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات میں یقینی شکست دیکھ کر شیر بوکھلا گیا ہے‘‘ لیکن کاش کہ اس کی شکست ہمارے ہاتھوں ہوتی، تاہم، اس پر خوش ہونے کا ہمیں بہرحال حق حاصل ہے کیونکہ شاید اسی طرح سے ہمارا کچھ بھرم رہ جائے حالانکہ ہماری بے مثال کارکردگی کا تقاضا کچھ اور تھا لیکن کارکردگی کو اس ناشکرے زمانے میں کون دیکھتا ہے وگرنہ خاکسار اکیلے کی کارگزاری بھی دونوں سابق وزرائے اعظم سے کچھ کم نہ تھی، کیسا زمانہ آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں آئندہ سیاست عوام اور غریبوں سے مل کر کروں گا‘‘ اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس دوران مجھے مزید امیر کردیا ہے تو غریبوں سے مل کر سیاست کرنا اور بھی مشکل ہوچکا ہے۔ آپ اگلے روز اپنے حلقے کے بعض مقامات پر اجتماعات سے خطاب کررہے تھے۔ کامیابی ق لیگ کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے…پرویز الٰہی مسلم لیگ ق کے رہنما اور سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ’’کامیابی ق لیگ کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے‘‘ اگرچہ لکھا تو کچھ اور جاچکا ہے لیکن ہم امید اور رجائیت پسند لوگ ہیںاور مایوس ہونے میں یقین نہیں رکھتے جبکہ ہم اپنا مقدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کافی حدتک سنوار چکے ہیں، اس لیے اس بار مقدر نے یاوری نہ بھی کی تو کوئی بات نہیں، خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے، کوئی اور راہ نکال دے گا کیونکہ ہم تو درویش لوگ ہیں، جو مل جائے اس کا شکر یہ ادا کرتے ہیں اور مزید ملنے کی امیدرکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ن لیگ فتح کے خواب دیکھنا چھوڑ دے‘‘ اور اسے ہمیں اپنے ساتھ نہ ملانے کی سزامل کررہے گی کہ ہم عاجز مسکین لوگ ہیں اور دعا کی بہ نسبت ہماری بددعا زیادہ لگتی ہے، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام جھوٹے وعدوں میں آنے والے نہیں‘‘ اسی لیے ہم نے کوئی وعدہ نہیں کیا کیونکہ ہم عوام کو، اور ہمیں عوام اچھی طرح سے پہچان گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے عوامی خدمت کی سیاست کی ہے‘‘ اور ساتھ ساتھ اگر اپنی خدمت بھی ہوگئی ہوتو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اقتدار میں آکر گائوں گائوں ترقیاتی کام کرائیں گے‘‘ کیونکہ انہی کاموں میں خود اپنی ترقی کا راز بھی پنہاں ہے جو گزشتہ کے ترقیاتی کاموں سے ثابت بھی ہوچکا ہے کیونکہ مصیبت کی طرح ترقی کچھ تنہا نہیں آتی۔ آپ اگلے دن گجرات میں ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ آج کا مقطع پروانے ہیں جس شمع تماشا کے، ظفرؔ، ہم دشمن بھی نہ جانے ہمیں‘ پیارا بھی نہ سمجھے