نواز لیگ فتح کے خواب دیکھنا چھوڑ دے: منظور وٹو سابق وفاقی وزیر اور پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاںمنظور وٹو نے کہا ہے کہ ’’نواز لیگ فتح کے خواب دیکھنا چھوڑ دے‘‘ بلکہ میرے ساتھ مل کر خواب دیکھے کیونکہ عمران خان کی جماعت کو ہمدردی کے ووٹ بھی ملنے کا امکان ہے۔ اس لیے میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ اپنے حلقے کے آخری جلسے میں ‘ لفٹر کے ذریعے سٹیج پر چڑھنے کی کوشش کروں گا تاکہ بعد میں کچھ ہمدردی کے ووٹ حاصل کر سکوں ورنہ تو جو ووٹ ملیں گے بیدردی کے حوالے سے ملیں گے جس کا اظہار اور ثبوت ہم نے گزشتہ پانچ برسوں میں دے ہی دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نواز لیگ سزا کے لیے تیار ہوجائے۔‘‘اگرچہ ہمارا نامۂ اعمال بھی کسی وقت کھل سکتا ہے لیکن انشاء اللہ ایسی نوبت نہیں آئے گی اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ سزا دینے والے بھی کچھ کم قابلِ سزا نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’شہروں میں بلاّ شیر کی دھلائی کرے گا‘‘ اور ہمارے لیے بھی امید کی یہی آخری کرن ہے ۔ آپ اگلے روز منڈی احمد آباد میں جلسۂ عام سے خطاب کررہے تھے۔ میں بھی وزیراعظم بن سکتا ہوں: فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’میں بھی وزیراعظم بن سکتا ہوں‘‘ کیونکہ اس کے لیے حلف ہی اٹھانا پڑتا ہے اور یہ کام الحمدللہ میں پورے جوش وخروش سے کرسکتا ہوں۔ البتہ صرف اکثریت حاصل کرنے کی دیر ہے لیکن مخالف امیدوار نے پہلے ہی جینا حرام کر رکھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’عمران خان کے وزیراعظم بننے کا کوئی امکان نہیں ہے‘‘ اگرچہ میری صورتحال بھی یہی ہے تاہم امریکہ سے درخواست کر رکھی ہے کہ اگر وزیراعظم بنوا دیا جائے تو ہر حکم کی تعمیل کرتا رہوں گا۔عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے وزیراعظم بنایا جائے تو بن سکتا ہوں اور اس میں کوئی شرعی امر مانع نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں خدا کے فضل سے کتاب اور اسلام دوست قوتوں کی کامیابی دیکھ رہا ہوں‘‘ تاہم اس عمر میںبصارت اور بینائی کچھ زیادہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتیں۔ اس لیے میں غور سے دوبارہ دیکھنے کی کوشش کروں گا ۔ ویسے بھی تمام دینی سیاسی جماعتیں الگ الگ ہی لڑ رہی ہیں کیونکہ بعض قوتوں نے بیچ میں ٹانگ اڑا کر نواز لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہی نہیں ہونے دی۔ آپ اگلے روز ڈی آئی خان، لکی مروت اور ٹانک وغیرہ میںا جتماعات سے خطاب کررہے تھے۔ عمران خان جلد عوام کے درمیان ہوں گے: عبدالعلیم خان پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ ’’عمران خان جلد عوام کے درمیان ہوں گے‘‘ بصورت دیگر میں تو موجود ہوں ہی‘ اس لیے عوام فی الحال مجھ پر ہی گزارا کرنے کی کوشش کریں حتیٰ کہ انہیں رفتہ رفتہ میری عادت ہی پڑ جائے اور لوگ عمران خان کو ویسے ہی بھول جائیں کیونکہ خود عمران خان نے صاف کہہ دیا ہے کہ ان کا کام ختم ہوگیا اور اور باقی سارا کام میں اور میرے ہم خیال ہی سر انجام دیں گے۔ جس کا ہمیں اب تک کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا ہے اور یہ تو سب لوگ جانتے ہیں کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ۔ عمران خان لفٹر پر چڑھنے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی گر کر زخمی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عمران خان کی جلد صحت یابی کے لیے پوری قوم دعا گو ہے‘‘ جبکہ خاکسار کی درازیٔ عمر کے لیے بھی اسے دعائیں مانگنی چاہئیں کیونکہ میرے جیسے لوگوں کی تحریک انصاف میں ویسے بھی بہت قلّت ہے جو آئندہ یعنی بہت جلد عمران خان کی جگہ لینے والے ہیں کیونکہ ہمارا نعرہ تبدیلی ہے اور تبدیلی کا مطلب ہر طرح کی تبدیلی ہے جس میں قیادت کی تبدیلی بھی شامل ہے اور قوم کو جس کا نہایت بے تابی سے انتظار بھی ہے اور خاکسار بھی اس سلسلے میں پوری طرح سے تیاری میں ہے اور شبھ گھڑی کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں عمران خان کے لیے منعقد کی گئی خصوصی دعائیہ تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ بنیادی پتھر ظاہر ہے عمران خان کی جماعت کو اتنی سیٹیں نہیں ملیں گی کہ وہ تنہا حکومت بنا سکے‘ لیکن وہ اُن جماعتوں سے اتحاد بھی نہیں کرے گی جنہوں نے باری باری اقتدار میں رہ کر ملک اور اس کے عوام کو اس حالت تک پہنچایا بلکہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کو ترجیح دے گی لیکن ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی کی انتہائوں تک پہنچنے والی پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ضرور آپس میں اتحاد کرلیں گی کیونکہ دونوں بنیادی طور پر ایک جیسی جماعتیں ہیں۔ تاہم یہ اپوزیشن صحیح معنوں میں اپوزیشن ہوگی اور فرینڈلی اپوزیشن قصۂ ماضی ہو کر رہ جائے گی اور یہی وہ مرحلہ ہے جو اس تبدیلی کی بنیاد ثابت ہوگا جس کا نعرہ عمران خان نے بلند کیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کو ایسے زبردست پریشر گروپ کی حیثیت حاصل ہوگی جو ان دونوں حکمران جماعتوں کو سیدھا کر دے گی بلکہ سیدھا رکھے گی بھی اور یہی وہ بنیادی پتھر ہے جو تبدیلی کا نقطہ آغاز ہوگا‘ گویا تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے‘ یہ کہیں رکنے والی نہیں کیونکہ جو پارٹی چند ماہ پہلے زیرو سے شروع ہو کر بڑے بڑوں کا غرور خاک میں ملا سکتی ہے اور یہاں تک پہنچ سکتی ہے‘ وہ مکمل تبدیلی کے لیے انتظار بھی کرسکتی ہے۔ کیونکہ اس کی اس دوران کارکردگی ہی اس کی مزید پہچان کا درجہ حاصل کرے گی کہ یہ ملک بھر کی دعائیں بھی اپنے ساتھ لے کر چلی ہے۔ آج کا مقطع ظفر کچھ اور نہیں ہے اگر تصّرف میں تو اپنے پاس وہ دست دعا ہی رہ جاتا