11 مئی کو ہماری حکومت بنے گی… نوازشریف نواز لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’11 مئی کو ہماری حکومت بنے گی‘‘ اگرچہ پہلے ایک دو دن حتمی فہرست کے آنے میں بھی لگ جائیں گے اور ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ صدر کو بھی حکومت بنانے کی دعوت دینے میں لگ جائیں گے جو کہ سراسر زیادتی ہے کیونکہ خاکسار اتنے برسوں سے اقتدار کے بغیر چلا آ رہا ہے‘ اس کا بھی کچھ خیال کرنا چاہیے اور انتظار کی اس زحمت سے اجتناب کی کوئی صورت نکالنی چاہیے ۔کسی شریف آدمی کے صبر کا اتنا امتحان لینا بھی کوئی اچھا کام نہیں ۔ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’سب توپیں ایک طرف‘ 11 مئی کو صرف شیر دھاڑے گا‘‘ کیونکہ اس وقت جس حالت سے وہ گزر رہا ہوگا‘ وہ اگر دھاڑے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؛ حالانکہ بلّا صرف کرکٹ کھیلنے کے لیے ہوتا ہے اور اس کا یہ غیر اخلاقی استعمال ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان نئے تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘ کیونکہ سٹیٹس کو ہی اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے جس کی پاسداری خاکسار کے ذمے لگا دی گئی ہے۔ اس لیے زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آزمودہ قیادت کی ضرورت ہے‘‘ اور آزمائے ہوئے کو آزمانا ہی عقلمندی کی علامت ہے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں آخری انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ اب ضیاء الحق کا پاکستان نہیں چلے گا… بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’’اب جنرل ضیاء الحق کا پاکستان نہیں چلے گا‘‘ بلکہ جنرل پرویز مشرف ہی کا پاکستان چلے گا جس کی پالیسیوں کو گزشتہ پانچ برس تک ہم نے جاری و ساری رکھا اور جاتے ہوئے اسے گارڈ آف آنر بھی پیش کیا بلکہ اس کے خلاف غداری کے مقدمہ پر بھی توجہ نہیں دی ۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان بڑی سازش کا شکار ہے‘‘ جو سب سے پہلے ہماری حکومت کے خلاف شروع ہوئی اور پانچ سال تک جاری رہی اور اب تک چل رہی ہے؛ چنانچہ تاریخ میں ایسی طویل سازش کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ضیاء الحق کی پیداوار کو الیکشن نہیں جیتنے دیں گے‘‘ البتہ اس کے ساتھ الیکشن کے بعد حسبِ سابق اتحاد ضرور کر لیں گے جو ہماری مفاہمتی پالیسی کا ہی تقاضا ہے کیونکہ اس میں موجیں اڑانے کی جتنی گنجائش موجود ہے‘ اس کا ذائقہ تمام پارٹیاں چکھ چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’11 مئی کو قائد کے پاکستان کو بچائیں گے‘‘ اگرچہ گزشتہ 5 سال میں ہم اسے پہلے ہی کافی حد تک بچا چکے ہیں اور اب اسے مزید بچانے کی گنجائش نہیں لیکن جو کسر رہ گئی ہے‘ ہم وہ بھی پوری کردیں گے کہ یہ بھی کیا یاد رکھے گا۔ آپ اگلے روز انتخابی مہم کے آخری روز ویڈیو خطاب کر رہے تھے۔ غلط لوگوں کو پارٹی سے نکال باہر پھینکیں گے… عمران خان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’غلط لوگوں کو پارٹی سے نکال باہر پھینکیں گے‘‘ جبکہ اصولی طور پر تو انہیں پارٹی میں لینا اور ٹکٹ دینا ہی غلط تھا لیکن یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ آخر پارٹی سے نکال باہر پھینکنے کے لیے بھی تو کوئی نہ کوئی ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ کریں تو اس کے بغیر تبدیلی کیسے آ سکتی ہے اگرچہ جو پہلے روز ہی آ گئی تھی جب بھانت بھانت کے لوگ پارٹی میں آ گھسے تھے جنہیں خوش آمدید نہ کہنا اخلاقی طور پر مناسب نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’17 سال پہلے تبدیلی کا خواب دیکھا تھا‘‘ لیکن اب آنکھ کھلنے پر معلوم ہوا ہے کہ تبدیلی وغیرہ سب ڈھکوسلے ہیں کیونکہ یہ کوئی اکیلے آدمی کا کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لیے 11 مئی کو گھروں سے باہر نکلیں‘‘ اگرچہ ان کی تقدیر میں جو لکھا جا چکا ہے اس کا بدلنا ایک خوش خیالی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ ہم نوشتۂ تقدیر میں کسی قسم کی دخل اندازی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تبدیلی آ کر رہے گی‘‘ اور اگر نہ آئی تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ میں ووٹ نہیں ڈال سکوں گا جس سے غالباً کسی سازش کے تحت مجھے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مانتے ہیں کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں‘‘ کیونکہ ہم بھی خطاکار انسانوں میں سے ہیں‘ اس لیے کسی کو اس پر حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ آپ اگلے روز ہسپتال سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے۔ عوام گھروں سے نکل آئے تو انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا… منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ ’’عوام گھروں سے نکل آئے تو انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا‘‘ لیکن صرف گھروں سے نکلنا ہی ضروری نہیں‘ ہمیں ووٹ بھی ڈالنا ہوگا ورنہ کسی انقلاب کے حوالے سے عوام خاطر جمع رکھیں‘ اگرچہ انقلاب کی بات کچھ اچھی نہیں لگتی کیونکہ ہم متوکّل آدمی ہیں اور راضی بہ رضا رہتے ہوئے سٹیٹس کو ہی کے قائل ہیں کیونکہ لوگ ہمارے نعروں کا تو جواب دیتے ہیں لیکن ووٹ دیتے وقت نجانے انہیں کون سا سانپ سونگھ جاتا ہے لہٰذا سب سے پہلے حکومت کو چاہیے کہ ملکِ عزیز سے ان سانپوں کا اچھی طرح سے قلع قمع کرے یا کم از کم کسی طرح ان کے سونگھنے کی عادت کو ہی ختم کر دیا جائے جس سے ہمیں ہر بار پالا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں ایسا انقلاب لانا چاہتے ہیں جو جذبوں سے بھرپور ہو‘‘ اگرچہ ابھی تک کوئی جذبوں سے خالی انقلاب لانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے جو صرف مخالفین کی سازش کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ایک دوسرے کو بے نقاب کر رہی ہیں‘‘ جو کہ بہت بُری بات ہے ۔ہم نے کبھی کسی کو بے نقاب نہیں کیا تاکہ کوئی ہمیں بھی بے نقاب نہ کرے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ ہم الیکشن میں اکثریت حاصل کریں گے… فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’ہم الیکشن میں اکثریت حاصل کریں گے‘‘ اور اس پر اتنے زور سے قہقہہ لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آرام اور شرافت سے ہنسنا بلکہ زیرِ لب مسکرانا ہی کافی ہے کیونکہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہونا ہے‘ ہم بھی اچھی طرح جانتے ہیں لیکن آخر کہنے میں کیا ہرج ہے جبکہ میں کون سا شرط لگا رہا ہوں کیونکہ میں ہارنے والی شرط کبھی نہیں لگاتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ہمارے بغیر حکومت بن بھی گئی تو چلے گی نہیں‘‘ کیونکہ ہم آہ و زاری ہی اس قدر کریں گے کہ حکومت بنانے والوں کو خود ہی رحم آ جائے گا کیونکہ ہمارا اِکا دُکا ممبر بھی باعثِ برکت ہوگا ورنہ یاد رکھیں کہ ہماری دعا لگے نہ لگے‘ بددعا بہت لگتی ہے‘ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکمرانوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کبھی کوشش نہیں کی‘‘ اگرچہ ہم بھی اکثر اوقات حکومتوں میں شامل رہے ہیں لیکن اپنی فلاح و بہبود میں ہی اس قدر مصروف رہے کہ عوام کا کبھی خیال ہی نہیں آیا کیونکہ حکمران خود یہی کچھ کر رہے تھے اور اس بہتی گنگا سے باہر نکلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں کوئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں‘‘ حتیٰ کہ ہم بھی اس کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ کوئی عقلمند آدمی اپنا سرمایہ ڈبونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ آپ اگلے روز بنوں میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ آج کا مقطع اُجڑ رہا تھا کوئی شہر کوچہ کوچہ‘ ظفرؔ اور‘ اس کے چاروں طرف خواب زار سا میں تھا