پیپلز پارٹی کو کوئی ختم نہیں کرسکتا: منظور وٹو سابق وفاقی وزیر اور پی پی پنجاب کے تادم تحریر صدر میاں منظورخاں وٹو نے کہا ہے کہ ’’پیپلزپارٹی کو کوئی ختم نہیں کرسکتا‘‘ حتیٰ کہ اپنی تمام تر مخلصانہ کوششوں کے باوجود اسے میں بھی ختم نہیں کرسکا جس کا بے حد افسوس ہے حالانکہ میں اس کی پوری پوری اہلیت رکھتا تھا، تاہم میں سیاست سے اپنے اور جملہ اعزہ و اقارب کا صفایا کرانے میں ضرور کامیاب ہوا ہوں کیونکہ دوسروں کے ساتھ میں نے بھی جو بویا تھا‘ وہی کاٹا ہے اور اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے حتیٰ کہ میں خود بھی حیران نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’شکست کے باوجود حوصلے بلند ہیں‘‘ اور یہ بھی بسیار غنیمت ہے کیونکہ اگر شکست نہ ہوتی تو ہمارے حوصلے پست ہی رہتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔‘‘ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہماری پانچ سالہ شفافیت پر جو سوالات اٹھتے رہے ہیں، کسی نے ہمارا کیا بگاڑ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جو ملک کو متحد رکھ سکتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ کام خاکسار اکیلا بھی سر انجام دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کا موقع دیا جائے کیونکہ اب تک جتنا مجھے موقع دیا گیا تھا اس میں کامیابی حاصل کرکے دکھا دی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ احمد مختار کو الیکشن لڑ کر ہماری حیثیت کا اندازہ ہوگیا: پرویزالٰہی سابق نائب وزیراعظم اور ق لیگ کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ’’احمد مختار کو الیکشن لڑ کر ہماری حیثیت کا اندازہ ہوگیا۔‘‘ اگرچہ ہمیں خود بھی الیکشن لڑ کر اپنی حیثیت کا اندازہ ہوگیا ہے جو کہ توقعات کے حساب سے بہت غلط نکلا‘ چنانچہ بھائی صاحب کی ہدایت کے مطابق ہم نے اس پر مٹی پا دی ہے کیونکہ مٹی کی ہمارے ملک میں کوئی کمی نہیں ہے اور جو خاک ہماری پارٹی کی اس الیکشن میں اڑی ہے‘ اگر وہی اکٹھی کرکے پا دی جائے تو کافی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’آزاد امیدواروں کی اکثریت ہمارے پاس آئے گی۔‘‘ اور واضح رہے کہ یہ وہی حضرات ہوں گے جنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے‘ ورنہ کامیاب ہونے والوں کا دماغ خراب نہیں ہے جو ہمارے ساتھ آئیں کیونکہ ہمارے ساتھ آنے سے بھی وہ ایسے ہی رہیں گے جیسے کہ اب ہیں اور اگر ہم کسی کے ساتھ جائیں گے تو وہ بھی ایسے ہی رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کی خدمت کرنا ہمارا اولین مقصد ہے۔‘‘ جس میں ہماری اپنی خدمت بھی شامل ہے کیونکہ ان انتخابات کے بعد تو ہم بھی عوام کے ہو کر رہ گئے ہیں اور اب خواص ہونے کی دوبارہ کوشش کریں گے۔ آپ اگلے روز گجرات میں مبارکباد دینے کیلئے آنے والوں سے گفتگو کررہے تھے۔ ن لیگ کو قوم کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا: فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’ن لیگ کو قوم کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔‘‘ اور ساتھ ساتھ میری توقعات پر پورا اترنے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہوگا‘ اگرچہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے سلسلے میں وہ میری مخلصانہ توقعات پر پورا اترتی دکھائی نہیں دیتی جو کہ نہایت قابل افسوس بات ہے‘ تاہم میں نوازشریف کو اپنے قیمتی مشوروں سے سرفراز کرتا رہوں گا اور وہ ان پر غور کرنے کا عندیہ بھی دیتے رہیں گے۔ انشاء اللہ العزیز۔ انہوں نے کہا کہ ’’ن لیگ مرکز میں ایک بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔‘‘ ا گرچہ ہم نے اس طرح سامنے آنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ ہم اپنے اکثر مسائل پس منظر میں رہ کر بھی حل کر لیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں اس بات پر خوشی ہوئی ہے کہ انتخابات پرامن طور پر ہوگئے ہیں۔‘‘ اور اس سے کہیں زیادہ خوشی ہوتی اگر میں اپنی خواہش اور توقعات کے مطابق وزیراعظم بھی بن سکتا‘ اگرچہ میں ایسا ہی سمجھتا ہوں کیونکہ وزارت عظمیٰ محض ایک طرز احساس کا نام ہے جو ماشاء اللہ میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور اپنے لیے فی الحال اسی کو کافی سمجھتا ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ الیکشن میں ہمارے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا: اسفندر یار ولی اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ ’’الیکشن میںہمارے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا۔‘‘ اوپر سے اس بیان نے کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا ہے کہ اسفند یار کو سیاست کی الف بے کا بھی پتہ نہیں ہے حالانکہ الف بے کی حد تک مجھے کافی واقفیت حاصل ہے‘ البتہ دیگر حروف تہجی کے بارے میں بہت جلد معلومات حاصل کر لوں گا۔ تاہم اگر یہ شب خون نہ بھی مارا جاتا تو بھی یہی نتیجہ نکلنا تھا کیونکہ بقول والدہ صاحبہ کے‘ میں اسلام آباد میں بیٹھا رہا اور علاقے میں کارکن مرتے رہے حالانکہ طالبان سے اپنی جان بچانا بھی بے حد ضروری تھا۔ جن کا میں اسلام آباد میں بیٹھ کر بھی مردانہ وار مقابل کرتا رہا اور ایوان صدر کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ’’حملوں میں ہمارے متعدد کارکنوں کو ہلاک کیا گیا‘ جن کے لیے میں اسلام آباد سے باقاعدہ دعائے مغفرت کرتا رہا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’دھاندلی کے باوجود انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ کیونکہ بلور صاحب میری اجازت اور اطلاع کے بغیر پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں اور میں بھی ایسا کرنے پر مجبور ہوگیا ہوں اور انسان کی مجبوریوں کا بہرحال خیال رکھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔ ایک نئے نوازشریف کی ضرورت کسی قوم کا جتنا خرچہ ایک جرنیل کی تیاری پر اٹھتا ہے‘ اتنا ہی ایک مدّبر سیاستدان پر بھی۔ نوازشریف آگئے ہیں تو ہم نے انہیں خوش آمدید بھی کہا ہے۔نوازلیگ کی کامیابی ایک حقیقت ہے جسے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم قوم ایک تبدیل شدہ نوازشریف کی تمنا کررہی ہے جو اب تک پرانے تجربات سے بہت کچھ سیکھ بھی چکے ہوں گے۔ صاحب موصوف اگر ایسی کمزوریوں پر قابو پالیں تو ایک ایسے سیاستدان کے طور پر منظر پر آسکتے ہیں جیسا کہ انہیں قوم دیکھنا چاہتی ہے! آج کا مقطع فلک پر پھیلے ہوئے خطہ ہائے خاک، ظفرؔ زمیں پر بکھرے ہوئے آسماں کے ٹکڑے