سرپرائز میاں نوازشریف نے ہسپتال جا کر عمران خان کی بیمار پرسی کا جو قدم اٹھایا ہے وہ محض ایک رسمی کارروائی نہیں بلکہ ملک میں سیاسی استحکام اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی طرف ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس کارروائی کے سنجیدہ ہونے کا ایک ثبوت ان کی اس گفتگو سے بھی ملتا ہے جس کا انہوں نے عیادت کے بعد کھلم کھلا اظہار کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کامیابی کے بعد وہ جس سفر پر روانہ ہوئے ہیں اور ان کی نظر جس منزل پر ہے اور اس کی راہ میں جو پیچ و خم آئیں گے اس کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے پر وہ عمل پیرا بھی ہورہے ہیں کہ یہ ان کی ضرورت بھی ہے۔ الیکشن لڑنا اور ایک دوسرے کے دوبدو ہونا دونوں کا جمہوری حق تھا اور اب قومی معاملات پر نئے سرے سے غوروفکر اور باہمی تعاون ملک کے ساتھ ان دونوں رہنمائوں کے اپنے بھی حق میں ہے کہ ہوا کے رخ کا احساس دونوں کو بدرجہ اتم ہوچکا ہے۔ اگرچہ اختلاف کی گنجائشیں اب بھی موجود رہیں گی‘ تاہم جس حد تک مل کر چلنے کے امکانات موجود ہیں اس سے یہ دونوں لیڈر پوری طرح آگاہ ہیں۔ بہرحال اس اقدام کو قومی سطح پر بے حد سراہا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے سرپرائز میاں صاحب اور بھی دیں گے۔ خوش امکانی کی ایک اور مثال ایک اخباری اطلاع کے مطابق مسلم لیگ ن کے حلقوں میں اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے کہ عمران خان کو قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی کی دعوت دی جائے۔ عمران خان اس بار وزیراعظم تو نہیں بن سکے لیکن انہوںنے ملکی سیاست میں بہرحال ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔ جہاں تک اس کمیٹی کی سربراہی کا تعلق ہے تو اس پر پچھلے دور میں بھی اپوزیشن لیڈر فائز رہے۔ اس کمیٹی کے بنیادی فرائض میں چونکہ حکومتی افراد اور اہلکاروں کی غلط کاریوں پر گہری نظر رکھنا اور ان کا محاسبہ کرنا بھی شامل ہے‘ اس لیے عمران سے بڑھ کر اس سلسلے میں کوئی انتخاب ہو ہی نہیں سکتا جبکہ اس سے آئندہ حکومت کی نیک نیتی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دونوں لیڈر ملک سے کرپشن کا قلع قمع کرنے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں اور یہ انتخاب اس حوالے سے بھی بہترین ثابت ہوسکتا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جو بسیار توجہ کا طالب ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں کیا ٹھوس پیش رفت ہوتی ہے اور چونکہ یہ میدان کرکٹ کی طرح عمران خان کی افتاد طبع کے بھی عین مطابق ہے اور میاں صاحب کی کوششوں سے ممکنہ باہمی تعاون کی جو فضا پیدا ہورہی ہے‘ عمران خان کو بھی اس پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ میں نہ مانوں ہمارے کرم فرما مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ کوتسلیم نہیں کرتے۔ صوبے میں حکومت بنانے کی تگ و دو کرنا ان کا جمہوری حق ہے جس سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن یہ سب کچھ وہ تحریکِ انصاف کے مینڈیٹ کے انکار کے بغیر بھی کرسکتے ہیں اور یہ انکار مولانا صاحب کو زیب بھی نہیں دیتا، اگر چہ کوئی بھی سیاسی موقف اختیار کرنے کا حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ صاحب موصوف نے اس ضمن میں میاں صاحب کے تعاون کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا لیکن ان کا تازہ موقف بھی مولانا صاحب کے سامنے ہے کہ وہ صوبہ میں عمران خان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیں اور سب کو دوسروں کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے۔ ادھر امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میںتحریک کے ساتھ تعاون کریں گے اور اس سلسلے میں ان کی گفت و شنید فریق ثانی کے ساتھ جاری ہے۔ اس تناظر میں مولانا صاحب کی کوششیں بار آور ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ جماعت کا یہ گلہ بھی بجا ہے کہ الیکشن سے پہلے ایم ایم اے کے احیا کی کوششوں میں مولانا صاحب کا عدم تعاون ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ قبل از وقت استعفے… ایک اچھی روایت پیپلزپارٹی کی انتخابات میں عمومی شکست جس میں پنجاب کا حصہ سب سے زیادہ ہے‘ کے بعد امریکہ میں پاکستانی سفیر‘ گورنر پنجاب اس کے صوبائی صدر اور یوسف رضا گیلانی سمیت جن عہدیداروں نے اپنے منصب کو خیر باد کہا ہے، یہ ایک اچھی روایت ہے‘ تاہم ایک اطلاع کے مطابق ہائی کمان کی طرف سے انہیں اس کی ہدایت بھی کی گئی تھی لیکن ان سب میں دلچسپ بیرسٹر اعتراز احسن کے سینٹ سے استعفے کی پیشکش بھی ہے جس کی حیثیت محض علامتی ہے ورنہ ان کی اہلیہ کی الیکشن میں ناکامی کا یہ تقاضا ہرگز نہیں تھا کہ وہ سینٹ سے بھی چھٹی کر جاتے اور یہ صرف پارٹی کے ساتھ ان کے اخلاص کا اظہار ہے ورنہ ایک تو پیپلز پارٹی موجودہ حالات میں سینٹ میں اپنی اکثریت کو کم کرنے پر کیسے آمادہ ہو سکتی ہے اور دوسرے‘ اعتزاز احسن جو پارٹی کے لیے صحیح معنوں میں ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں‘ پارٹی کو انہیں دور کرنے کی بجائے مزید قریب لانے کی ضرورت ہے۔ مثلاً پنجاب میں پارٹی کی سربراہی کا فریضہ ان کے سپرد کیا جا سکتا ہے کہ وہ کارکنوں میں بھی عزت و ا حترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور پارٹی کے احیاء میں ایک ٹھوس کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نیز بشریٰ اعتزاز کو خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے ایک پر فائز کیا جا سکتا ہے۔ احمد صغیر صدیقی اور اب آخر میں ’’اجرا‘‘ کراچی کے تازہ شمارے میں سے احمد صغیر صدیقی کے یہ خوبصورت اشعار: بہت سادہ ہے پرُکاری ہماری ہے یہ تلوار دو دھاری ہماری ہے اک اندر کے سناٹے کا نقشہ یہ ساری شوخ گفتاری ہماری بتاتی ہے کہیں جانا نہیں ہے کہیں جانے کی تیاری ہماری ……………… اعتبارِ مہ و ستارہ نہیں آسماں کا کوئی بھروسہ نہیں سب کی ہیں ایک جیسی زندگیاں اپنا قصہ بھی اپنا قصہ نہیں ایسے بیٹھے ہیں سب گنوائے ہوئے ایسا لگتا ہے کوئی صدمہ نہیں کہیں رہنا بھی چاہتے نہیں ہم کہیں جانے کا بھی ارادہ نہیں بس ہمیں ہیں کہ اپنے سوگ میں ہیں شہر بھر میں کوئی فسردہ نہیں آج کا مقطع غبار سا کوئی باقی ہوں اے ظفرؔ کہیں پیچھے میں اپنا قافلۂ مختصر گزار چکا ہوں