انتقال اقتدار میں تاخیر نہیں ہوگی …وزیراعظم کھوسو نگران وزیراعظم میرہزار خاں کھوسو نے کہا ہے کہ ’’انتقال اقتدار میں تاخیر نہیں ہوگی‘‘ کیونکہ جو ضروری کام تھے نمٹا لیے گئے ہیں اور بہت سی اچھی اچھی پوسٹوں پر اپنی پسند کے بندے تعینات کر دیئے ہیں، اگرچہ ہمارا مینڈیٹ صرف الیکشن کرانا تھا لیکن ساتھ ساتھ نیک کام کرنے کی بھی ممانعت نہیں ہے اور شاید اسی لیے برخوردار کی تعیناتی اور ترقی پر بالآخر خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سمندر پارپاکستانیوں کے لیے قومی پالیسی مرتب کی جائے گی‘‘ اگرچہ یہ بھی ہمارے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہے لیکن الیکشن تو ہوچکا ہے، اب ہم نے گھروں میں بیٹھ کر مکھیاں تو نہیں مارنی جبکہ قائداعظم نے بھی کام، کام اور صرف کام کی تاکید کررکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قوم نے انتخابات میں ثابت کردیا کہ دہشت گردی کو شکست دے سکتی ہے‘‘ کیونکہ اگر وہ قبر میں پائوں لٹکائے ہوئے شخص کو اپنا نگران وزیراعظم تسلیم کرسکتی ہے تو وہ کچھ بھی کرسکتی ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی بھی میری طرح بزرگی سے دس قدم آگے نکل گئے ہیں جس کا الیکشن میں دھاندلیوں اور شکایات پر کان نہ دھرنے سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ اس عمر میں تو اتنا کچھ ہی کیا جاسکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ کوئی بدعنوان سزا سے نہیں بچ سکے گا …نوازشریف متوقع وزیراعظم اور نواز لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’کوئی بدعنوان سزاسے نہیں بچ سکے گا‘‘۔؛تاہم اس لیے اس سلسلے میں سوچ بچار سے کام لینا اور پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر ہم انہیں سزا نہ دے سکے تو وہ اللہ میاں کی گرفت میں ضرور آجائیں گے اس لیے کسی کو بھی اس بار فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’پارٹی منشور کے ہرلفظ پر عمل کریں گے‘‘ چنانچہ سب سے پہلے پارٹی منشور کے جملہ الفاظ کی گنتی کی جائے گی، تاکہ اسی حساب سے ان پر عمل کیا جاسکے اور کوئی کمی بیشی نہ ہونے پائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپٹ مافیا کے خلاف بگل بج گیا ہے‘‘۔کرپشن کے خاتمے کے سلسلے میں یہ بگل بجانا ہی تھاجو بڑے اچھے طریقے سے بجا دیا گیا،بقایا کام بھی، اگر اللہ کو منظور ہوا تو آہستہ آہستہ ہوتا رہے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں نئے شامل ہونے والے ارکان اسمبلی سے ملاقات کررہے تھے۔ 47فیصد عوام نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا …طاہر القادری ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ’’47فیصد عوام نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا‘‘ کیونکہ جو لوگ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی ووٹ نہ ڈال سکے تھے، ہماری نظر میں وہ بائیکاٹ کرکے خاکسار کی ہدایات پر ہی عمل کررہے تھے، اگرچہ جن لوگوں نے ووٹ ڈالے، وہ بھی میرے ہم خیال ہی تھے لیکن انہیں ایک سازش کے تحت گھروں سے نکالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عالمی طاقتوں نے منصوبے کے تحت پاکستان میں طالبان نواز جماعت کو کامیاب کروایا، اور خاکسار کی قربانیوں کو یکسر نظرانداز کردیا جس پر دل خون کے آنسو روتا ہے، اور ، یہ انسانی خون ہے، بکرے کا خون نہیں، جس کے نشانات ماضی میں خاکسار کی چھت پر پائے گئے تھے، انہوں نے کہا کہ ’’ایک بار پھر مک مکا ہوگیا ہے اور متفقہ حکومت بننے جارہی ہے، حالانکہ یہ جمہوریت کا حسن ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ تو سرپھٹول اور دھینگا مشتی پر مبنی ہوتا ہے اور اسی لیے جمہوریت اس قدر بدصورت دکھائی دیتی ہے انہوں نے کہا کہ ’’اب مشرف بھی باہر جاسکیں گے‘‘ حالانکہ مشرف کبھی بھی میرا مسئلہ نہیں رہے، لیکن پاکستانی سیاست بھی کب میرا مسئلہ رہی ہے بلکہ میں خود انشاء اللہ پاکستان کے لیے مسئلہ بننے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہوں لیکن فی الحال صرف سرہی ٹوٹا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس کررہے تھے۔ الیکشن میں پی ٹی آئی نئی قوت بن کر ابھری ہے …عبدالعلیم خاں تحریک انصاف لاہور کے صدر عبدالعلیم خاں نے کہا ہے کہ ’’پی ٹی آئی نئی قوت بن کر ابھری ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ مجھے ابھارنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی کیونکہ ابھی تک یہ اعلان بھی نہیں کیا گیا کہ مجھے خالی ہونے والی کونسی نشست پر کھڑ اکیا جائے گا۔ یا میں گھر میں کھڑے کا کھڑا رہ جائوں گا اور مجھے لاہور کی اس صدارت پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’خیبر پختونخوا میں مثالی حکومت بنائیں گے، اگرچہ یہ بھی ہمارے خلاف سازش ہی لگتی ہے کیونکہ مثالی حکومت اس ملک کے مزاج ہی کے خلاف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر دھاندلی کے حوالے سے عوام کے تحفظات برقرار رہے تو لوگوں کا جمہوری عمل پر سے یقین ہی اٹھ جائے گا، اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم ازکم میرے تحفظات ہی دور کردیئے جائیں اور کسی حلقے سے کھڑا کرکے کامیاب کروایا جائے تاکہ کم ازکم میرا یقین تو جمہوریت پر قائم رہ جائے۔ آپ اگلے روز بالآخر تنگ آکر لاہور سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ خوابوں کی دنیا ہمارے کرم فرما منظور وسان صاحب نے ایک بار پھر خواب دیکھا ہے کہ وہ سندھ میں ایک نوجوان وزیراعلیٰ کا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ کم ازکم قائم علی شاہ کا چہرہ نہیں ہے جو مونچھوں، بھنوئوں اور سرکے باقی ماندہ بال کالے کرلینے کے بعد بھی کسی طرح نوجوان قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ اصل میں انہیں خواب میں اویس مظفر ٹپی ہی کا چہرہ نظر آیا ہے کہ عملاً وزارت اعلیٰ وہی گُھٹا رہے تھے اور قائم علی شاہ صرف دستخط کیا کرتے اور محض ایک شامل باجے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ٹپی صاحب صدر زرداری کے منہ بولے بھائی بتائے جاتے ہیں جو پس پردہ وزارت اعلیٰ کی خدمات سرانجام دینے کے بعد یہ نقاب اتارکر باقاعدہ ظاہر ہونے والے ہیں اور فی الحال اس کا چھپا چھپا اظہار منظور وسان کے خوابوں کے ذریعے ہی کررہے ہیں لیکن یہ ستر وحجاب بس اب چند روز ہی کا معاملہ رہ گیا ہے اور اس طرح منظور وسان صاحب کا ایک اور خواب پورا ہوجائے گا ۔ اگرچہ خواب تو کسی زمانے میں ہمارے ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی بہت آیا کرتے تھے لیکن لگتا ہے کہ اب انہیں اس ضمن میں کافی افاقہ ہے یا اپنے خوابوں پر سے ان کا اپنا اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ آج کا مقطع اپنی ہی ،ظفر، خاک اڑاتے ہیں شب وروز ہم پر بھی ہواتنگ بیابان ہمارا اور اب آخر میں خانہ پری کے لیے یہ تازہ غزل : یہ جو الزام سے لگے ہوئے ہیں ایک ہی نام سے لگے ہوئے ہیں ایک ہی کام ہم کو آتا ہے اور اسی کام سے لگے ہوئے ہیں بڑا تکلیف دہ معاملہ ہے بڑے آرام سے لگے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے آسمان میں بھی کچھ دروبام سے لگے ہوئے ہیں وہی کانٹے ہیں راہ میں اپنی اسی گلفام سے لگے ہوئے ہیں پیڑ تو آم کا نہیں، لیکن شاخ پر آم سے لگے ہوئے ہیں پختہ کاری کا وقت ہے، اور ہم ہوس خام سے لگے ہوئے ہیں چھوڑ بیٹھے ہیں طرز خاص ظفرؔ روش عام سے لگے ہوئے ہیں