فی الحال یہ اطلاع دینا مقصود ہے کہ آصف فرخی کے سہ ماہی رسالہ ’’دنیا زاد‘‘ کراچی کا تازہ شمارہ چھپ گیا ہے اور اس میں وہ سارا کچھ موجود ہے جس کی اس کے قاری توقع کرتے اور اس کا باقاعدہ انتظار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی ہی سے ’’اجرا‘‘ اور ’’اسالیب‘‘ کے تازہ شمارے بھی آئے ہیں۔ ’’اسالیب‘‘ کے دونوں شمارے مجلد ہیں جبکہ ’’زیست‘‘ کا پچھلا شمارہ جو ’’منٹو صدی نمبر‘‘ تھا، وہ بھی مجلد تھا۔ یہ بہت اچھی روایت کا آغاز ہوا ہے جس سے ان کتابی سلسلوں کو ایک باقاعدہ کتاب کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ ان سے پہلے سہ ماہی ’’اجمال‘‘ کا تازہ شمارہ بھی شائع ہوا ہے جبکہ ادھر سے صرف حسین ضیاؔ کا پرچہ فیصل آباد سے شائع ہوکر مارکیٹ میں آیا ہے۔ مطلب یہ کہ کراچی اس لحاظ سے لیڈ کررہا ہے۔ باقی رسائل پر تفصیلی گفتگو کسی بعد کی نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال ’’دنیا زاد‘‘ کی ایک جھلک حاضر ہے جس میں چنیدہ لکھنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے جن میں انتظار حسین، شمس الرحمن فاروقی، فہمیدہ ریاض اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے مضامین بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ چونکہ منٹو صدی ابھی جاری ہے، اس لیے عبدالسمیع نے منٹو اور اس کے ایک ہم عصر دیوندرستیارتھی پرقلم اٹھایا ہے ۔ ہمارے دوست شاہدحمید کی تحریر ان کے علاوہ ہے۔ تاہم حصہ نثر میں مشتاق احمد یوسفی، حسن منظر ، انور سن رائے، ضیا محی الدین اور دیگر شامل ہیں۔ تراجم کا حصہ حسب معمول وقیع اور ہمہ صفت موصوف ہے جس میں محمد سلیم الرحمن، مسعود اشعر ، نجم الدین احمد، سید سعید نقوی اور ظفر قریشی شامل ہیں۔ حصہ نظم کے بڑے ناموں میں منیب الرحمن ، عذرا عباس ، فاطمہ حسن، امجد اسلام امجد اور دیگر ہیں جبکہ شعبہ غزل میں اسلم فرخی، احمد مشتاق ، انور شعور، ضیاء الحسن، محسن شکیل، انعام ندیم اور دوسرے ہیں۔ اس شمارے کو ’’کتاب کا پھول‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جو منیب الرحمن کے ایک مصرع سے ماخوذ ہے۔ پرچے کا انتساب اس طرح ہے: ’’سماجی رجحانات کی تجزیہ کار اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کا شعوری انتخاب کرنے والی باہمت ، حوصلہ مند اور دلیر پروین رحمان کے نام جنہوں نے اپنے کام کی خاطر اپنی جان کانذرانہ دینے سے بھی دریغ نہ کیا‘‘۔ منٹو سال کے حوالے سے ہی انتظار حسین نے ’’سوہے وہ بھی آدمی ‘‘ کے عنوان سے مضمون قلمبند کیا ہے جو ایک بڑے اور لیجنڈ افسانہ نگار کی طرف سے ایک ایسی ہی ہستی کے لیے یادگیری بھی ہے اور اس کے کام کا بھرپور تجزیہ بھی۔ شمس الرحمن نے ایک شاعر اموجان ولی کا سراغ لگایا ہے اور اس کی رباعیات کے مجموعے پر خیال آرائی کی ہے جبکہ دوسرے مضمون کی حیثیت اشفاق احمد ورک کے جدید اردو غزل کے ایک انتخاب ’’غزل آباد‘‘ پر تبصرہ ہے جبکہ فہمیدہ ریاض نے میرا جی کی شاعری پر اظہار خیال کیا ہے اور یہ بھی میرا جی کی سوسالہ تقریبات ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا غالباً آغاز جریدے’’جدید ادب‘‘ نے چندماہ پہلے کیا تھا۔ ناصر عباس نیّر نے ’’حاشیے پر لکھا متن‘‘ کے عنوان سے منٹو کے افسانے کی تازہ تفہیم کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس کے حصۂ غزل میں سے کچھ اشعار: کتنی تاریکی ہے شہرِدل وجاں پرطاری کوئی اندازہ نہیں کون کدھر جائے گا ہنگامۂ ہستی سے گزرکیوں نہیں جاتے رستے میں کھڑے ہوگئے، گھرکیوں نہیں جاتے (اسلم فرخی) چپ کہیں اور لیے پھرتی تھی باتیں کہیں اور دن کہیں اور گزرتے تھے تو راتیں کہیں اور یہی دنیا تھی مگر آج بھی یوں لگتا ہے جیسے کاٹی ہوں ترے ہجر کی راتیں کہیں اور (احمد مشتاق) یہ تمہارے گرد کوئی دائرہ ہرگز نہیں یہ تمہارے ساتھ میرے چار سُو کا ذکر ہے (محسن شکیل) یہ حال ہے اس دل کا کہ کچھ کھلتا نہیں ہے میں آگ زیادہ ہوں کہ ہوں پانی زیادہ (ضیاء الحسن) بھول جائو گے حقیقت میری یاد رکھو گے فسانہ میرا رہ گیا جانے کہاں پر دیکھو آنے والا تھا زمانہ میرا ریت پر نقش رائگانی تھا اور ملتا تھا ہو بہ ہو مجھ سے دیکھتا ہوں ہرقدم مُڑ مُڑ کے میں دل سے دنیا کی طرف آتا ہوا وہ ہمسفر ہے شاید، وہ ہمسفر نہیں ہے دل کے معاملے کی دل کو خبر نہیں ہے کوئی مشعل بدست تھا جس کا قافلے میں شمار تھا ہی نہیں میں نے جس کو غبار سمجھا تھا درحقیقت غبار تھا ہی نہیں دیکھ لیجے مکان دل پہلے پھر جہاں چاہے جی‘ وہاں رہیے دیا تھا میں کہاں کی رہگزر کا کہاں جلتا رہا ہوں، کیا بتائوں (انعام ندیم) جن کو خاطر میں ہی نہ لائے تھے اب انہی میں شمار ہے اپنا (خواجہ جاوید اختر) تقریباً تین سو صفحے کا یہ رسالہ ہے جبکہ یہ اس کا 37واں شمارہ ہے۔ آج کا مقطع سفینہ سمت بدلتا ہے اپنے آپ‘ ظفرؔ کوئی بتائے میرا بادباں کہاں گیا ہے