چند ماہ بعد آزاد ہو کر لاہور میں ڈیرے لگائوں گا… زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’چند ماہ بعد آزاد ہو کر لاہور میں ڈیرے لگائوں گا‘‘ کیونکہ کروڑوں کا یہ محل ایسے ہی تحفے میں نہیں لے رکھا‘ اگرچہ محلات کا تجربہ کچھ اتنا خوشگوار نہیں ہے جو سرے محل کی صورتِ حال سے ہی صاف ظاہر ہے جس کے بارے ایک وقت میں یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جس کا جی چاہے اسے لے لے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلز پارٹی کو چند قومی اور عالمی اداروں نے سازش کے تحت ہرایا‘‘ حالانکہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ہم نے اپنے حسنِ کارکردگی کی بناء پر خود ہی ہار جانا تھا کیونکہ یہی جمہوریت کا حسن ہے جسے ہم نے خوب چار چاند لگائے اور جس سلسلے میں گیلانی خاندان اور راجہ پرویز اشرف کی خدمات بطور خاص قابل ذکر ہیں اور منظور وٹو سمیت ان سے اس لیے بھی گلوخلاصی نہیں کرائی جا سکتی کہ کم بخت کہیں سلطانی گواہ ہی نہ بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کو محدود کر کے سندھ کی پارٹی بنانا چاہتی ہے‘‘ حالانکہ سندھ میں بھی ہماری صورت حال مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم پنجاب واپس لیں گے‘‘ جس کے لیے منظور وٹو صاحب کو ٹاسک دے دیا گیا ہے جس کی ابتداء وہ اپنی ان سیٹوں سے کریں گے جو عبرتناک شکست کے باعث غائب غُلَّہ ہو گئی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی عہدیداروں کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ سڑکوں پر آ کر حکومت تبدیل کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے… نوازشریف مستقبل کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’سڑکوں پر آ کر حکومت کا تختہ الٹانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ اگر ہم بھی کچھ نہ کر سکے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے جس سے ٹریفک کی روانی میں بھی فرق پڑ سکتا ہے جبکہ سڑکیں چلنے پھرنے کے لیے ہوتی ہیں‘ کچھ نہ کرنے کی خاطر باہر نکلنے کے لیے نہیں۔ علاوہ ازیں اس حرکت سے سڑکوں کی صفائی بھی متاثر ہوتی ہے کہ لوگ جا بجا ان پر چھلکے وغیرہ اور استعمال شدہ چیزیں پھینکتے رہتے ہیں حالانکہ شہر کو صاف ستھرا رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے؛ چنانچہ اپنے دور میں ہمارا سڑکوں پر نکلنے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور ہم اپنے اس نصف ایمان کی حفاظت ہر صورت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا وقت نہیں دے سکتا‘‘ کیونکہ مجھے علمِ نجوم میں کوئی درک حاصل نہیں ہے‘ البتہ شہباز صاحب ماضی میں ایسی پیش گوئیاں ضرور کرتے رہے ہیں جو پوری نہیں ہوتی رہیں کیونکہ اس علم کا تعلق ستاروں سے ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی چال تبدیل کرتے رہتے ہیں اور یہ سب کچھ عمران خان کی تبدیلی کے نعرے کا کیا دھرا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز لاہور میں نو منتخب ارکان اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔ نتائج تبدیل کر کے عوام کے حوصلوں کو پست نہیں کیا جا سکتا… عمران خان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’انتخابی نتائج تبدیل کر کے عوام کے حوصلوں کو پست نہیں کیا جا سکتا‘‘ جبکہ اس نیک کام کے لیے کئی اور بھی طریقے موجود ہیں اور اگر خدا نے توفیق بخشی تو اس کا مظاہرہ شاید ہم بھی کر کے دکھا دیں کیونکہ دیگر صوبوں کی طرح نہ پختونخوا میں کرپشن ختم کی جا سکتی ہے اور نہ وہاں اتنی آسانی سے امن و امان بحال ہو سکتا ہے‘ اس لیے مثالی حکومت کا سونامی شاید وہاں بھی آتے آتے رہ جائے جو اگر 11 مئی کو نہیں آیا تو ہم نے اس کا کیا بگاڑ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوامی مینڈیٹ کو کسی صورت دبانے نہیں دیا جائے گا‘‘ اور یہ کام انشاء اللہ اگلے انتخابات ہی میں ہو سکتا ہے کیونکہ اس دفعہ تو عوامی مینڈیٹ دبانے والوں کے لیے بددعا ہی مانگ سکتے ہیں کہ وہ بھی جلد از جلد ہمارے ہی جیسے ہو جائیں۔ انہوں نے لکھا کہ ’’ووٹروں کے حقوق کا دفاع کریں گے‘‘ جس کے لیے دفاعی پالیسی کی ہی ضرورت ہے جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپشن کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کریں گے‘‘ اگرچہ خالی خولی حوصلہ شکنی سے اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرے دروازے عوام کے لیے آج بھی کھلے ہیں‘‘ لیکن چوری چکاری کا زمانہ ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دروازے 24 گھنٹے کھلے نہیں رکھے جا سکتے۔ آپ اگلے روز عیادت کے لیے آنے والوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کو عنقریب لوگ اچھے لفظوں سے یاد کریں گے… منظور وٹو پیپلز پارٹی کے رہنما میاں منظور خان وٹو نے کہا ہے کہ ’’پیپلز پارٹی کو عنقریب لوگ اچھے لفظوں سے یاد کریں گے‘‘ کیونکہ لغت سے سارے اچھے الفاظ شرپسند مخالفین نے غائب کر دیئے ہیں اور اچھے الفاظ دستیاب ہی نہیں ہیں ماسوائے اس کے کہ لوگ ہماری اچھی کارکردگی کو یاد کر کے ہمیں دعائیں دیتے رہیں کیونکہ زن‘ زر اور زمین ہی سارے فساد کی جڑ ہوتے ہیں اور زر کو ملکی خزانے سے خالی کر کے فساد کی ایک جڑ کو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ زمین کے حوالے سے بھی ہمارے قبضہ گروپوں نے یادگار خدمات سرانجام دے رکھی ہیں جس کے نتائج لوگوں کے سامنے ہیں اور اس لحاظ سے بھی خاصا امن واقعہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مستقبل پیپلز پارٹی کا ہے‘‘ کیونکہ ہمارا سارا انحصار عوام کے کمزور حافظے پر ہے اور اگلے الیکشن تک انہیں ہماری مہربانیاں بھول بھُلا چکی ہوں گی اور وہ ہمارے استقبال کے لیے چشم براہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی‘‘ حالانکہ معمولی درجے کی دھاندلی سے‘ بلکہ دھاندلی کے بغیر بھی یہی نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے اور ہم اس کے لیے ذہنی طور پر بالکل تیار تھے کیونکہ ہمیں اپنے جملۂ کارہائے نمایاں و خفیہ اچھی طرح سے یاد تھے کیونکہ مال و زر کے علاوہ ہماری یادداشت میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کا مستقبل؟ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق صدر زرداری کے لاہور اجلاس میں گیلانی‘ راجہ‘ وٹو اور مخدوم شہاب الدین کو سٹیج پر بٹھایا گیا۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ پارٹی کو اپنی غلطیوں کا احساس کس قدر ہے اور وہ ان سے کتنا سبق سیکھنا چاہتی یا سیکھ چکی ہے۔ سو‘ اس کا مستقبل صاف ظاہر ہے‘ یعنی ؎ گر ہمی مکتب است و ایں مُلّا کارِ طفلاں تمام خواہد شُد زرداری صاحب کے مسلمہ پارٹی لیڈر ہونے پر ابھی تک سوالات موجود ہیں کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کس طرح پارٹی پر قبضہ کیا اور اپنے بدنامِ زمانہ ساتھیوں کے ساتھ اسے کس طرح سے چلایا اور انتخابات میں اس کا انجام بھی دیکھ لیا۔ بلاول بے نظیر کا بیٹا ضرور ہے لیکن وہ زرداری کا بیٹا بھی ہے جن کی ساری نیک نامیاں اس کے حصے میں بھی آئی ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا پر موصوف کی التجائوں کا بھی مثبت جواب عوام نے نہیں دیا۔ علاوہ ازیں‘ اگر نواز حکومت ڈلیور نہیں بھی کر سکتی تو بھی مستقبل عمران خان کا ہے‘ پیپلز پارٹی کا نہیں۔ آدمی اپنے ساتھیوں سے پہچانا جاتا ہے‘ اگرچہ زرداری اپنی واضح شناخت بھی رکھتے ہیں جو ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج کا مطلع کسی لرزتے ہوئے ستارے پہ جا رہا تھا میں کوئی خس تھا‘ مگر‘ شرارے پہ جا رہا تھا