کچھ عرصہ پہلے میں نے احمد صغیر صدیقی کے بارے میں لکھا تھا کہ پورے کراچی میں یہ واحد شاعر ہے جسے پتہ ہے کہ شعر کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے بنتا ہے۔ میرا مقصد کراچی کے دوستوں کو ناراض کرنا نہیں بلکہ انہیں یہ احساس دلانا تھا کہ وہ موزوں گوئی اور شاعری میں جو باریک فرق ہے اسے ملحوظ خاطر رکھیں۔ احمد صغیر ایک ایسا شاعر ہے جو جتنا باکمال ہے اتنا ہی اس کے بارے میں تغافل اور بے اعتنائی سے کام لیا گیا ہے اور اس کے اصل مقام کا اسے دسواں حصہ بھی نہیں دیا گیا اور یہ ہمارے نقاد حضرات کی عمومی صورت حال کا بھی غماز ہے۔ اس کی کتاب ’’لمحوں کی گنتی‘‘ میں آدھی نظمیں ہیں اور آدھی غزلیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ غزلوں کے اس مختصر حصے میں سے میں نے 77 شعر نکالے ہیں جو میرے نزدیک شعر کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ کسی کتاب میں بہتر اشعار کا ایسا تناسب آج تک میری نظر نہیں گزرا۔ میں کوئی نقاد تو نہیں ہوں اور نہ ہی اس طرح سے شعر کی خوبیاں بیان کرسکتا ہوں‘ اس لیے میں اس کے اشعار نقل کرنا ہی کافی سمجھوں گا تاکہ قارئین اور اہل نظر ان کی خوبیوں کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔ مثلاً ان کے کچھ شعر دیکھیے جنہیں میں نے نشان زد کر رکھا ہے۔ کوئی بھی چیز بہت دیر تک نہیں رکھتا ابھی نہیں تو اُسے پھر کبھی نکالتا ہوں اندھیرا بھی دھرے ہے اپنے اندر روشنی کچھ چراغوں نے بھی سر پر کچھ دھواں رکھا ہوا ہے اُدھرکونے میں رکھ چھوڑی ہے تھوڑی سی زمیں بھی جدھر محراب میں کچھ آسماںرکھا ہوا ہے جہاں گرتی ہے گر جائے یہ برقِ شاخِ دشمن جہاں رکھا تھا ہم نے آشیاں رکھا ہوا ہے نمٹ رہا ہوں ابھی دوسروں سے‘ اس کے بعد میں اپنے آپ کو بھی خوار کرنے والا ہوں کیا تھا میں نے عدم سے ظہور پچھلی بار سو میں کچھ اور ہی اس بار کرنے والا ہوں جو کچھ کہیں رکھا تھا کہیں رکھ رہے ہیں اور ہر چیز کو کہیں سے کہیں کررہے ہیں ہم یوں ہورہا ہے جیسے نہیں ہورہا ہے کچھ یوں کررہے ہیں جیسے نہیں کررہے ہیں ہم ذرا آنکھیں کھلی رکھنا تماشا ہونے والا ہے کہ دریا اب کوئی دم میں کنارہ ہونے والا ہے سبھی گھر بند ہوتے جارہے ہیں ایک اک کر کے کوئی میدان اب مجھ پر کشادہ ہونے والا ہے بتانا ہے کسی کو ہوچکا ہے اب تلک کیا کیا کسی سے پوچھنا ہے اور کیا کیا ہونے والا ہے قابل غور بات یہ ہے کہ یہ شعر کتنی آسانی سے کہے گئے ہیں۔ جدید شاعری کی ایک ،خوبی یا نقص یہ بھی ہے کہ اس میں مضمون یا موضوع پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا کیونکہ بعض بلکہ ا کثر اوقات نیا مضمون یا موضوع باندھنے کے باوجود شعر نہیں بنتا کیونکہ شعر کا شعر بننا بہرحال ضروری ہے ورنہ وہ محض قافیہ پیمائی ہے کہ شعر تو کلک کرتا ہے‘ پھول کی طرح کھلتا ہے اور اس میں ایک کرنٹ، ایک طلسم ہوتا ہے جو شعر کو موزوں گوئی کی دلدل سے نکال کر شاعری کے مدار میں داخل کرتا ہے۔ غزل کے شعر کو خوش مزہ ہونا چاہیے کیونکہ قاری آپ کی غزل عرفان و آگہی حاصل کرنے یا آپ کی فلسفہ دانی اور گیان دھیان سے متاثر ہونے کے لیے نہیں پڑھتا‘ پھر بات کہنے کا انداز بھی آپ کا اپنا ہونا چاہیے جو قاری کو اپنی طرف خود متوجہ کرے۔ کچھ اور شعر دیکھیے: خانہ بیزار سہی، در سے نہیں نکلے ہیں ہم سفر میں ہیں مگر گھر سے نہیں نکلے ہیں ہوا پھر اکیلی اکیلی سی ہے دریچے پہ کوئی دیا چاہیے تماشا ذات کا مستُور ہونے کے لیے تھا میں اتنا خوش بہت رنجور ہونے کے لیے تھا کہاں میں اور کہاں گوشہ نشینی کا یہ اعلان یہ سارا سلسلہ مشہور ہونے کے لیے تھا ہمیں اس عشق میں دل ٹوٹنے کا غم نہیں ہے یہ شیشہ یوں بھی چکنا چور ہونے کے لیے تھا اُدھر وہ سوچ رہا تھا سمٹ کے بیٹھ رہے ادھر ہم اپنی حدوں سے گزرنے والے تھے کہیں نزدیک ہی رکھی ہے بچھڑنے کی گھڑی اس سے ملنے کے سب اسباب بہم ہوگئے ہیں میں نے جو کچھ بھی کہا وہ تو کسی نے نہ سنا چپ ہوا میں تو بہت شور زمانے سے اُٹھا جانا نہ تھا کہیں ہمیں‘ بس یہیں کہیں جانے کہاں کہاں پھرے‘ جانے کدھر کدھر گئے کسی کو اس سے غرض کب تھی جب سنوار رہا تھا کسی کو اس سے غرض کیا اگر اجاڑ رہا ہوں کیا تعجب کہ یہاں کوئی نہیں اپنی شناخت وہ جو ہم میں سے نہیں‘ اپنے نمائندہ ہیں سو، شعر کہنے کا اپنا ایک طریقہ ہے، اگر یہ طریقہ آجائے تو شعر تبھی کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ شاعری تو وہ ہے جو گائیکی کے ذریعے نہیں بلکہ کتاب کے ذریعے آپ تک پہنچے۔ پھر شاعری وہ ہے جسے آپ پڑھتے جائیں اور وہ آپ کے ساتھ چلتی جائے۔ اس کے بارے میں اہل ذوق خود اندازہ لگائیں کہ یہ دوسروں سے کتنی اور کیسے مختلف ہے۔ میری رائے میں یہی وہ لوگ ہیں جو اس مرتی ہوئی صنف کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور جن کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر ہی گنی جاسکتی ہے کہ شاعری کسی کی جاگیر نہیں۔ خدا جس پر بہت مہربان ہوتا ہے، اسے شاعر بنا دیتا ہے، لیکن اُسی کو‘ جس سے وہ یہ کام لینا چاہتا ہے… (جاری) آج کا مقطع گزر گئی تھی مجھے کچل کر‘ ظفر‘ کوئی شے وگرنہ میں تو کہیں کنارے پہ جارہا تھا