میاںصاحب کو ابھی سے وزیراعظم سمجھتا ہوں …زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’میںمیاں نوازشریف کوابھی سے وزیراعظم سمجھتا ہوں‘‘ کیونکہ اگر نہ بھی سمجھوں تو بھی انہوں نے حلف اٹھانے کے لیے آجانا ہے تو پھر میں کیا کروں گا جبکہ انہوں نے اسی تقریب کے لیے لاکھوں روپے مالیت کی شیروانی بھی سلوا لی ہے اور اگر مجھے آئندہ صدر بننے کی ذراسی بھی امید ہوتی تو ان سے اس ٹیلر ماسٹر کا پتہ ضرور پوچھتا جس نے یہ تیار کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بحیثیت وزیراعظم نواز شریف کی حمایت کا فیصلہ امین فہیم کریں گے۔ ‘‘جو ہمیشہ سے اچھے فیصلے کرتے آئے ہیں، مثلاً انہوں نے اپنے اکائونٹ میں چارکروڑ روپے جمع ہونے سے صاف لاعلمی کا اظہار کردیا تھاجس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ درویش آدمی ہیں اور روپے پیسے کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے اور اس سلسلے میں وہ ہوبہو مجھ پر گئے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ’’وزارت عظمیٰ کے دوران ملکی مفاد کے لیے نوازشریف کو ایوان صدر سے بھرپور تعاون حاصل رہے گا‘‘ کیونکہ ہم نے اپنے پانچ سالہ دور میں ملکی مفاد ہی کا سب سے زیادہ خیال رکھاہے اور گیلانی خاندان ، راجہ پرویز اشرف اور منظوروٹو خاص طورپر سارا کام چھوڑ کر اسی کارِخیر میں لگے رہے ، البتہ میں تو چند ماہ ہی کا مہمان ہوں اور اتنے ہی عرصے کی ضمانت دے سکتا ہوں جبکہ ہم نے جوکام بھی کیا ہے، بھرپور طریقے ہی سے کیا ہے آپ اگلے روز ایوان صدر میں چینی وزیراعظم کی ضیافت کے دوران میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ صدرزرداری سے استعفیٰ کیوں مانگوں گا…نوازشریف متوقع وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’صدر زرداری سے استعفیٰ کیوں مانگوں گا‘‘ کیونکہ ایک تو اس لیے کہ میرے استعفیٰ مانگنے پر انہوں نے کونسا دے دینا ہے اور دوسرے بغل گیرہونے اور اکٹھا کھانا کھانے کے بعد وہ پرانا وقت یاد آگیا جب ہم پہلے علی الاعلان اور بعد میں درپردہ یک جان دوقالب ہواکرتے تھے، اور فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا طعنہ بھی سنا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ماضی کی تلخیاں بھلاکر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ‘‘ اور زرداری صاحب کے مفاہمت کے سنہری اصول کو اپنانے کاتہیہ کرلیا ہے تاکہ کسی کو بھی کوئی شکایت پیدا نہ ہو اور سب اپنے اپنے کیک کے ٹکڑے سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اپنی ذات کی بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی‘‘ کیونکہ دونوں فریق اپنی ذات کو کافی ترجیح دے چکے ہیں، اور فی الحال مزید ترجیح کی ضرورت نہیں ہے، اگر کبھی پیدا ہوئی تو دیکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کی بقاء اور ترقی کے لیے ساتھ چلیں گے ‘‘ جبکہ اپنی بقا اور ترقی ساتھ ساتھ خودہی ہوتی رہے گی کیونکہ یہ ایک خود کار طریق کار ہے اور اس کے لیے کسی خصوصی اقدام کی ضرورت نہیں ہوتی، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’ملاقات اچھی ہونی چاہیے اور اچھے کی توقع رکھنی چاہیے ‘‘ جس کے لیے کھانے کی میز ہی سب سے بہترین جگہ ہے اور ہم دونوں ہمیشہ سے اس بات کا خیال بھی رکھتے چلے آرہے ہیں۔ آپ اگلے روز ایوان صدر میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ ہمیں جہالت، بدامنی، بیروزگاری اور کرپشن کے خلاف جنگ لڑنی ہے…عمران خان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’ہمیں جہالت ، بدامنی بیروزگاری اور کرپشن کے خلاف جنگ لڑنی ہے ‘‘ لیکن سب سے پہلے ہم ان کے ساتھ مذاکرات کریں گے کیونکہ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی اور سارے تنازعات مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھ کر حل کیے جاسکتے ہیں، تاہم چونکہ میز پر بیٹھنا کافی مشکل کام ہے، اس لیے اس کے ساتھ کرسیوں کا بھی انتظام کیا جائے گا اور ان کرسیوں کی حفاظت بھی کی جائے گی تاکہ قصور میں منعقدہ جلسے کی طرح مذاکرات میں شامل لوگ اپنے ساتھ ہی نہ لے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’قوم کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں گے‘‘ اور چونکہ ہمارے سیاسی لیڈروں نے قوم کے ساتھ وعدے کررکھے ہیں، اگر وہ پورے کریں گے تو ہم بھی کرلیں گے کیونکہ قومی روایات کا احترام بھی بہت ضروری ہے۔ آپ نے کہا کہ ’’تحریک انصاف کسی سے خوفزدہ ہوئے بغیر حق، سچ اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی‘‘ چنانچہ جونہی ہم اپنے حقوق حاصل کرنے سے فارغ ہوتے ہیں یہ جدوجہد شروع کردی جائے گی کیونکہ دھرنے بلاشبہ ایک نادر طریقہ کار ہے جس میں آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا بلکہ اس میں لیٹنے اور سونے کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے چنانچہ ہمارے ایک لیڈر عبدالعلیم خاں نے کارکنوں سے بالکل صحیح کہا ہے کہ اسلام آباد کا رخ کریں تاکہ دھرنوں کا نیا سونامی وہاں سے شروع کیا جاسکے۔ آپ اگلے روز لاہور میں جماعت اسلامی کے سراج الحق سے گفتگو کررہے تھے۔ فرائض ادا نہ کرنے والوں سے کوئی تعلق نہ ہوگا… شہباز شریف متوقع وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’فرائض ادا نہ کرنے والوں سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘ اور انہیں کھلی چھٹی ہوگی کہ خصموں کو کھائیں ،جو مرضی کرتے پھریں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہ ہوگا، البتہ وہ اپنا تعلق برقرار رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی اور ہم گاڑی چلانے کے لیے آئے ہیں، خربوزے بیچنے کے لیے نہیں، جوزیادہ تر پھیکے ہی نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عام آدمی نے نواز لیگ پر اعتماد کا اظہار کیا‘‘ اور اس نیک کام میں ہماری فرض شناس پولیس اور انتخابی عملے نے بھی ان سے بھرپور تعاون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ریپڈ ایجوکیشنل سسٹم لائیں گے‘‘ جو ریپڈبس سروس ہی کی طرز کا ہوگا اگرچہ اس کے ڈرائیور بھی آئے دن ہڑتال پر رہتے ہیں، تاہم ہڑتال کرنا ان کا جمہوری حق ہے لیکن یہ امر باعث مسرت ہے کہ انہوں نے فی الحال دھرنا دینا شروع نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’منتخب ارکان عوام کو جواب دہ ہیں‘‘ بلکہ سب سے پہلے تو وہ مجھ کو جواب دہ ہیں اور مجھے اچھی طرح سے جانتے بھی ہیں، اور جو نہیں جانتے انہیں بھی میرا تعارف بہت جلد ہوجائے گا، کسی خوش فہمی میں نہ رہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں گفتگو، خطاب اورترک وفد سے ملاقات کررہے تھے۔ چندہ اور بھتہ مانگنے والوں کو نکال دیں گے …الطاف حسین الطاف حسین نے کہا ہے کہ ’’چندہ اور بھتہ مانگنے والوں کو پارٹی سے نکال دیں گے ‘‘ کیونکہ تاجر اور دکاندار اگر خودہی اتنے شریف النفس اور وضعدار واقع ہوتے ہیں کہ وہ یہ خدمت خود بخود ہی کردیتے ہیں تو ان سے مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’زمینوں، پلاٹوں پر قبضہ ، خریدوفروخت اور ٹھیکیداری کرنے والوں کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ‘‘ جبکہ کراچی جو اتنا بڑا شہر ہے وہ کہیں بھی رہ کر یہ سرگرمیاں اگر جاری رکھ سکتے ہیں تو انہیں پارٹی میں رہ کر اور اسے بدنام کرکے کیا حاصل ہوسکتا ہے اور، اگرچہ ان کی کارروائیوں کا احساس ہمیں ذرا دیر سے ہواہے، تاہم ہرکام اپنے وقت پر ہی اچھالگتا ہے، نیز ایسے حضرات اب تک کافی پھل پھول چکے ہوں گے اس لیے یہ لوگ سراسر غیرضروری ہوکر رہ گئے ہیں اور پارٹی کو نئے خون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایم کیوایم میں تطہیر کا عمل شروع ہوچکا ہے‘‘ اور اس کے انجام کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مجھے فی الحال علم نجوم میں کوئی درک حاصل نہیں ہے ، البتہ میں نے اس سلسلے میں ابتدا کرتے ہوئے ستاروں کی چال کا مشاہدہ شروع کردیا ہے اور ساری ساری رات اس کام میں مصروف رہتا ہوں اور صرف دویا تین گھنٹے سوتا ہوں جبکہ خواب میں بھی ستاروں کے ساتھ رابطہ رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’رابطہ کمیٹی سے نکالے جانے والوں سے کوئی رابطہ نہ رکھے‘‘ البتہ وہ لوگ رابطہ رکھ سکتے ہیں کیونکہ جمہوریت میںکسی کو کسی کام سے روکا نہیں جاسکتا۔ آپ اگلے روز فون پر اظہار خیال کررہے تھے۔ آج کا مطلع محتاج بہت اپنی طبیعت بھی نہیں تھی کچھ اس کو محبت کی ضرورت بھی نہیں تھی