دہشت گردی کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے…آصف علی زرداری صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’ہم نے دہشت گردی کے خاتمے کا تہیہ کررکھا ہے ۔اسی طرح ہم نے کرپشن کے خاتمے کا بھی تہیہ کر رکھا تھا لیکن یہ الٹا بڑھتی اور پھولتی پھلتی گئی، شاید اس لئے کہ اس کیلئے آب و ہوا بہت سازگارتھی اور اگر گیلانی خاندان، راجہ پرویز اشرف اورمنظور وٹو اس کے آگے بند نہ باندھتے توشاید یہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتی اور اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں انہوں نے کہا کہ’’ہمارا عزم متزلزل نہیں ہوگا‘‘ جس میں اب چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں اس لئے اب تک جو عزم قائم رہا ہے اس کو غنیمت سمجھا جائے جبکہ مذکورہ بالا معززین اپنی حد تک اسے ضرور قائم رکھیں گے کیونکہ خاکسار تو صرف مقدمات بھگتنے کیلئے ہی رہ جائے گا جنہیں توڑ چڑھانے کاپختہ ارادہ کر لیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کوئٹہ میں دہشت گردی گھنائونا جرم ہے‘‘ ویسے بھی ملک عزیز میں ہر چیز کو گھنائونی ہونے کی عادت ہی پڑی ہوئی ہے جیسا کہ ہماری گڈگورننس بھی ماشاء اللہ کافی حد تک گھنائونی تھی جس کے باوجود ہم انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگئے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ توانائی بحران کا حل چاہتے ہیں…نواز شریف متوقع وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’ہم توانائی بحران کا حل چاہتے ہیں ‘‘اور اس کے حل میں ماشاء اللہ نصف کامیابی حاصل کر چکے ہیں کیونکہ کسی اچھے کام کا ارادہ کرلیناہی نصف کامیابی کی ضمانت ہے چنانچہ ہم رفتہ رفتہ دیگر بحرانوں کے حل کا ارادہ بھی ظاہر کرتے رہیں گے اور اس طرح نصف کامیابیاں سمیٹتے رہیں گے اور اقتدار کے پہلے 100دن میں یہ کام تسلی بخش طور پر سرانجام پا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’چین یہاں سرمایہ کاری کرے‘‘ اورطالبان کے حملوں کی کچھ زیادہ فکر نہ کرے کیونکہ ان کے ساتھ مذاکرات کا ارادہ ظاہر کرکے اس میں بھی نصف کامیابی حاصل کرلی ہے اور باقی ماندہ نصف کے لئے مولانا فضل الرحمن کی خوشامد میںمصروف ہیں جو فی الحال اپنے مطالبات کی فہرست تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ بصورت دیگر بھی ان کے لئے کارگر نسخے ہمارے پاس ہیں جو گزشتہ حکومتیں بھی کامیابی سے آزماتی رہی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ’’چین ہمیں نیوکلیئر ٹیکنالوجی دے‘‘ جس کے بدلے میں ہم تو اسے کچھ نہیں دے سکتے ماسوائے گوادر پورٹ کے جس کا کنٹرول ہم نے پہلے ہی اس کے سپرد کردیا ہے جبکہ ملک کا باقی سارا کنٹرول میں نے پورے عجزوانکسار کے ساتھ اپنے پاس رکھنے کا ارادہ کرلیا ہے اور اس میں بھی فی الحال نصف کامیابی ہی حاصل کی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں چینی وزیراعظم سے مخاطب تھے۔ مذاکرات مثبت پیش رفت کی سمت بڑھ رہے ہیں…فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’نواز لیگ کے ساتھ مذاکرات مثبت پیش رفت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ‘‘جبکہ ان کا کہنا ہے کہ آپ اتنا کچھ مانگ رہے ہیں ،کچھ ہمارے پاس بھی تو رہنے دیں۔ ہم کیا تربوز لگانے کیلئے آئے ہیں ،لیکن یہ بھی ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ اختیارات محض کانٹوں کی مالا ہوتے ہیں جسے ہم بخوشی اپنے گلے میں ڈال کر انہیں تمام فکروں سے آزاد کرناچاہتے ہیں جبکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں انہیں ہماری مدد اور تعاون کی جتنی ضرورت ہے ، اس کے مقابلے میں یہ مطالبات کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’زیادہ تر پالیسی ایشوز پر اتفاق رائے ہوگیا ہے ‘‘جبکہ ہماری پالیسی ہی بہت مختصر ہے جسے فریق ثانی اچھی طرح سمجھتا ہے اور جو سادگی میں اپنی مثال نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’معیشت اور ملک میں امن و امان پر بات چیت ہوئی ‘‘بلکہ زیادہ تر معیشت ہی پر ہوئی جو ہمارے معاشی حالات کے تناظر میں جاری ہے اور جس پربہت جلد مکمل اتفاق ہوجائے گا کیونکہ ہم نے بھی کوئی خربوزوں کا سٹال نہیں لگا رکھا ہے اور ہم نے بھی تلاش رزق اس پس منظر میں کرنا ہے اور سب کو اپنے اپنے حصے پر ہی قناعت کرنی چاہیے اور زیادہ لالچ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ پیپلزپارٹی اقتدار کی پرامن منتقلی کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے…اعتزاز احسن سنیٹر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ’’پیپلزپارٹی اقتدارکی پرامن منتقلی کواپنی کامیابی سمجھتی ہے‘‘ اس لئے الیکشن ہارنے کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ ایک چھوٹی شکست کے مقابلے میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرلی گئی ہے جو صدرزرداری کی مفاہمتی پالیسی ہی کا نتیجہ ہے اور یہ دسترخوان 24گھنٹے کھلا رہتا تھا اورہر حصے دار اپنی اشتہا کے مطابق اس سے مستفید ہوتا رہتا تھا، حتیٰ کہ کھانا بھی ختم ہوگیا اور حکومت کی میعاد بھی ؛چنانچہ نئی حکومت کو نئی دیگ ہی چڑھانی پڑے گی کیونکہ ماشاء اللہ وہ بھی مفاہمت ہی کی طرف رواں دواں ہے جبکہ بھوکوں کو کھانا کھلانا ویسے بھی ثواب کا کام ہے انہوں نے کہا کہ ’’چین کا مخالف پاکستان کا مخالف ہے ‘‘ جبکہ حالیہ انتخابات میں ہمارے مخالفوں کا پتہ ہی نہیں چل سکا حالانکہ حکومت سیاست کو عبادت ہی کے طورپر سرانجام دیتی رہی جبکہ کئی معززین توسجدے سے سر اٹھاتے ہی نہیں تھے۔ اور ظاہر ہے کہ بہت پہنچے ہوئے لوگ تھے جو دنیائے دنی کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتے تھے اور انہی کی ان کرامات کی بدولت پارٹی اپنے اونچے مقام پرکھڑی نظر آتی ہے جبکہ آئندہ کیلئے بھی انہیں بزرگوں پر انحصارکیا جا رہا ہے اور جس سے پارٹی کا تابناک مستقبل صاف نظربھی آ رہا ہے آپ اگلے روز سینٹ سے خطاب کر رہے تھے۔ ہم نواز شریف کو ناکام دیکھنا نہیں چاہتے……قمرزمان کائرہ پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’ہم نواز شریف کو ناکام دیکھنا نہیں چاہتے ‘‘کیونکہ اپنی ناکامی کودیکھ کر ہی اتنی تسلی ہوگئی ہے کہ کسی اور کی ناکامی دیکھنے کا کوئی شوق باقی نہیں رہا جبکہ اپنی ناکامی کے اسباب کاصحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ اس کی وجہ بعض وزرائے کرام کا حسن کارکردگی تھا یا سارے کے سارے معززین ہی اپنی اپنی مثال قائم کرنے میں لگے ہوئے تھے اور جوشاید گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنانام درج کرانے کے خواہشمند تھے حالانکہ آدمی کا اصل انعام اسکا کام ہی ہوتا ہے اور جس کی ان زعماء نے انتہا کرکے رکھ دی تھی تاکہ آنے والی پوری کی پوری نسلیں اپنی معیشت سے بے نیاز ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’نواز شریف کی ناکامی نقصان دہ ہوگی‘‘ جبکہ ہماری ناکامی کچھ شرفاء کی کامیابی ہی شمار ہوگی کیونکہ انہوں نے دن رات سر توڑ محنت کی اور اللہ میاں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے اور خود انہی کی حالت بدلتا ہے جو اپنی حالت خود بھی بدلنا چاہتے ہوں تاہم انہوں نے اپنی حالت خود ہی بدل لی اور اس طرح اپنے پائوں پر مستقل مزاجی سے کھڑے ہونا بھی کسی کسی کا کام ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ آج کا مقطع ظفر، جانے کی جلدی تھی کچھ اتنی کہ پیچھے رہ گیا سامان سارا