احمد صغیر صدیقی کی شاعری پر میرا پہلا کالم شائع ہوا تو مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا کہ آپ نے اسے ایک بہت بڑا شاعر قرار دیا ہے لیکن اس کے اشعار دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسے بہت بڑا شاعر قرار ہی نہیں دیا اور نہ ہی اپنے آپ کو کوئی بڑا شاعر سمجھتا ہوں اور نہ ہی اپنے آپ کو ایسا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مجاز سمجھتا ہوں۔ جو شاعری مجھے اچھی لگتی ہے میں لکھ کر اس کا اعتراف کرتا ہوں تاکہ یہ دوسروں تک بھی پہنچ جائے۔ اسی دوران کراچی سے ایک دوست کا فون آیا کہ ان اشعار میں تو سارے کا سارا ظفراقبال ہی نظر آتا ہے، وہی لب ولہجہ ، وہی لفظیات ،شعر کہنے کا وہی طریقہ، اس میں احمد صغیر صدیقی کہاں ہے ؟ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، ماسوائے اس کے کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہاں وہاں زیادہ بہتر ہے جہاں جہاں میرے قریب تر ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ میں نے اپنے لب ولہجہ کو پیٹنٹ نہیں کروا رکھا کہ کوئی دوسرا اسے چھو بھی نہیں سکتا۔ پھر میرے تو کئی لہجے ہیں کہ میں ایک لہجے پر ٹک کر بیٹھنے والا کب ہوں۔ تاہم میں لب ولہجے کو ایک صدقہ جاریہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک کسی دوسرے کے لہجے میں بات کرنا کوئی عیب کی بات بھی نہیں ہے۔ برادرم شمس الرحمن فاروقی نے کوئی دس سال پہلے کہا تھا کہ گزشتہ 35سال سے ظفراقبال کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مجھے آصف فرخی کے سہ ماہی ادبیات ، میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا عنوان تھا ’’ظفراقبال اور اس کے مقلدین کا سیلاب‘‘۔ کسی کے لہجے میں شعر کہنے میں کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ اس میں کسی قدر اپنا آپ بھی شامل کیا جائے اور وہ محض نقالی نہ ہو۔ امین حزیں سیالکوٹی نے اقبالؔ کے رنگ میں بہت شعر کہے، لیکن اس کا نام بھی اب کون جانتا ہے۔ شہزاد احمد بھی اول اول اقبالؔ سے متاثرتھے لیکن جلدی ہی اس کے اثر سے نکل گئے، قمر رضا شہزاد کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تو میں نے اسے اپنی توسیع قرار دیا تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا رنگ نکالا اور خوب نکالا۔ احمد صغیر صدیقی ایک سینئر شاعر ہے اس لیے میں اسے اپنی توسیع بھی قرار نہیں دے سکتا۔ اگر وہ مجھ سے متاثر ہے بھی تو کیا اسے میری بجائے سرشار صدیقی سے متاثر ہونا چاہیے تھا؟ سو احمد صغیر صدیقی کی شاعری میں اس کا اپنا بھی بہت کچھ موجود ہے۔ پھر وہ مرنجان مرنج اور ناک کی سیدھ میں چلنے والا شاعر ہے جبکہ میں نے ہرطرح کا شعر کہہ رکھا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ شعر فحش اور مخرب الاخلاق ہے تو میں نے وہ شعر بھی کہا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ شعر اوٹ پٹانگ اور بے معنی ہے تو میں نے وہ شعر بھی کہہ رکھا ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ کیا یہ بھی شعر ہے، تو میں نے ایسا شعر بھی کہہ رکھا ہے، اس لیے کہ یہ شعر کی تلاش ۔ہی کی ساری کڑیاں ہیں جو میرے اس سارے سفر کا ۔منتہاو مقصود ہے کیونکہ اپنی حالت تو یہ ہے کہ ؎ میں بھاگتا پھرتا ہوں بے سود تعاقب میں یہ شعر کی تتلی ہے جوہاتھ نہیں آتی اس لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ احمد صغیر صدیقی نے میرا، یا میں نے اس کا لب ولہجہ اختیار کررکھا ہے کیونکہ یہ صرف لب ولہجہ نہیں، اس میں اور بھی بہت کچھ ہے، یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ میری اور اس کی شاعری ہم دونوں کی مشترکہ کارگزاری ہے۔ اس سلسلے کی ایک دلچسپ بات یہ بھی رہی کہ ہمارے دوست انور شعور ؔ نے ایک بار کہا تھا کہ جون ایلیا کا جو لب ولہجہ ہے وہ دراصل ان کا ہے جو جون بھائی نے اڑا لیا۔ تاہم اگر ایسا ہوتو یہ بھی جون بھائی کی ہمت اور طاقت تھی کہ وہ کامیابی سے ایسا کر گئے۔ چنانچہ کوئی جونیئر اگر میرا لب ولہجہ اختیار کرتا ہے تو یہ میرے لیے خوشی کی بات ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر ابرار احمد نے ایک بار کہا تھا کہ آپ کو اس طرح کی شاعری ہی اچھی لگتی ہے جس طرح کی شاعری آپ خود کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ درست ہو کیونکہ قدرتی بات ہے کہ ہر شاعر اپنی پسند کی شاعری کرتا ہے اور اسی طرح کی شاعری دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے ورنہ وہ اس طرح کی شاعری ہرگز نہ کرے، چنانچہ اگر میرے لیے یہ ناپسندیدہ بات ہوتی کہ احمد صغیر صدیقی کم وبیش میری ہی طرح کی شاعری کررہا ہے تو میں اس بات پر افسوس کا اظہار نہ کرتا کہ اس پر تفصیل سے کام ہونا چاہیے تھا اور نہ ہی میں اس کی شاعری پر قلم اٹھاتا ، بصورت دیگر تو وہ میرے نزدیک گردن زدنی ٹھہرتا۔ اس کی کتابوں پر مختلف زعماء نے جورائے دے رکھی ہے، اس پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے، اگرچہ ایسی آراکی حیثیت فرمائشی ہی ہوتی ہے ۔ آپ کی دلچسپی کے لیے کچھ آرا نقل کرتا ہوں : آپ کی نظموں میں ایک گہری کسک ہے ۔آپ کی امیجری بھی تازہ ہے (وزیر آغا) آپ کی غزل تازہ اور تراشیدہ دکھائی دیتی ہے، عام ڈگر سے ہٹ کر اپنا راستہ بناتی ہوئی (ڈاکٹر رئوف امیر ) احمد صغیر صدیقی غزل جیسی روایتی صنف میں بھی ذرا جداگانہ روش دکھاتے ہیں۔ ان غزلوں میں غیرمفرس الفاظ کے استعمال سے انہوں نے ایک مخصوص لہجہ تراشا ہے (مظہرجمیل ) بیان کی مانوسیت کو ختم کرکے اسے نامانوس لہجہ عطا کرنے کا عمل جسے رومن جیکسن نے ادبیت اور ایزراپائونڈنے نئی تشکیل کہا ہے ،آپ کے ہاں بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔(پروفیسر ریاض صدیقی) احمد صغیر صدیقی کی شاعری میں انوکھے لہجے کی جوبازگشت ہے وہ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔(سرور جاوید) احمد صغیر صدیقی کی شاعری میں احساس کے بالکل نئے زاویے ہیں (پروفیسر سحر انصاری) آپ کے کلام کی تازگی نے مجھے متاثر کیا (ڈاکٹر جمیل جالبی کے خط سے اقتباس) احمد صغیر صدیقی کا کمال یہ ہے کہ قاری جونہی اس شاعرانہ فضا میں داخل ہوتا ہے وہ اتنا مسحور ہوجاتا ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اس سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے (ڈاکٹر محمدعالم خان ،ماہنامہ تخلیق لاہور) احمد صغیر صدیقی کا شعر تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے جو اپنے ساتھ خوشبو سمیٹ کر وارد ہوتا ہے (ڈاکٹر توصیف تبسم) احمد صغیر صدیقی کی شاعری پڑھے جانے اور یاد رکھے جانے کے قابل ہے (ڈاکٹر عنوان چشتی) ایک اور بات جو احمد صغیر صدیقی کو بے شمار شاعروں سے الگ کرتی ہے وہ شاعر کی پروقار اور اناپرست شخصیت ہے جو کمال ملائمت کے ساتھ شعری پیکروں میں ڈھلتی چلی گئی ہے (ڈاکٹر سجاد نقوی) آپ نے دیکھا کہ ان میں سے کسی نے بھی اسے ظفراقبال کا ہم لہجہ قرار نہیں دیا۔ لیکن ان پہ اتنا گلہ ضرور ہے کہ شاعر کے بارے میں اتنی اچھی رائے رکھنے کے باوجود کسی نے اس کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لینے کی زحمت نہیں اٹھائی ۔ اس کی تازہ ترین کتاب ’’تجرید‘‘ہے جو بعد میں شائع ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ جوکچھ کہنا چاہتا تھا، ’’لمحوں کی گنتی‘‘ ہی میں کہہ چکا ہے۔ البتہ اس کی تازہ شاعری کے نمونے کافی جاندار ہیں، اور اس نے اپنا لہجہ برقرار رکھا ہوا ہے ۔میں اس سارے کام پر اسے مبارکباد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جیسی شاعری ہمارے اردگرد ٹنوں کے حساب سے لکھی جارہی ہے، اس کے تناظر میں یہ واقعی تازہ ہواکا ایک جھونکا ہے اور ہمیں ایسی ہی شاعری کی ضرورت بھی ہے! آج کا مقطع سودا سلف کہیں نظر آتا نہیں، ظفرؔ کیسے دکاندار ہو، کیسی دکان ہے (ختم)