کچھ قوتیں انتخابات ملتوی کرانا چاہتی تھیں: کھوسو نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے کہا ہے کہ ’’کچھ قوتیں انتخابات ملتوی کرانا چاہتی تھیں‘‘ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا ورنہ ہم لوگوں کو خدمت کا کچھ اور موقع مل جاتا اور کچھ لوگوں کو مزید ادھر ادھر کیا جاسکتا‘ بیشک سپریم کورٹ کے کہنے پر وہ احکامات واپس ہی لینا پڑتے لیکن احکامات صادر کرنے میں جو نشہ ہے وہ انہیں واپس لینے سے بھی ہرن نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’نگران وزیراعظم ریٹائرڈ جج کو ہی ہونا چاہیے۔‘‘ اور اس تجربے کے بعد خاکسار کا تو اس نظریے پر یقین اور بھی پختہ ہوگیا ہے ۔نیز چیف الیکشن کمشنر بھی ریٹائرڈ جج ہی کو ہونا چاہیے جو اتنی بہادری سے انتخابات کراسکے کہ دھاندلی زدہ امیدوار دیکھتے ہی رہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’بروقت انتخابات کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہ تھا‘‘ اگرچہ ادھر ادھر راستہ نکالنے کی کوشش تو بہت کی گئی لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ آپ نے کہا کہ ’’ایسے حالات نہیں تھے کہ انتخابات ملتوی کیے جاتے‘‘ اگرچہ کچھ سرفروشوں نے اس سلسلے میں بے حد مخلصانہ کوششیں بھی کیں لیکن آج کل خلوص کی کوئی قیمت ہی نہیں رہ گئی، اس لیے صبر ہی کرنا پڑا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ کشکول توڑ کر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہوگا: میاں نوازشریف نامزد وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’کشکول توڑ کر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہوگا‘‘ اور انشاء اللہ موجودہ مالی مسائل کسی نہ کسی طرح حل کرنے کے بعد یہ کشکول ضرور توڑ دیں گے کیونکہ دست سوال دراز کرنے کیلئے کشکول وغیرہ کا ہونا ویسے بھی ضروری نہیں ہے، نیز اپنے پائوں پر بھی وقت آنے پر ہی کھڑا ہوا جاسکتا ہے کیونکہ اتنے آرام طلب پائوں پر یکلخت اتنا بوجھ ڈال دینا بھی مناسب نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپشن برداشت نہیں ہوگی‘‘ تاہم جہاں اور بہت سی آلائشیں اور مصیبتیں برداشت کرنا ہوں گی اسے برداشت نہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کامیابی دے، آمین! انہوں نے کہا کہ ’’لائن لاسز کے خاتمے اور بقایا جات کی وصولی کے لیے سختی کرنا ہوگی‘‘ اور آئندہ اس سلسلے میں کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ اگرچہ سختی کی بجائے ہم پیار محبت سے سارے کام کرنا چاہتے ہیں اس لیے امید ہے کہ ایک بار پچکارنے سے ہی نہ صرف لائن لاسز بند ہوجائیں گے بلکہ بقایا جات بھی وصول ہوجائیں گے اور اگر خدا کو ایسا منظور نہ ہوا تو سوائے صبر جمیل کے اور کیا چارہ رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا ’’سب جان لیں کہ اللہ نے ہم سے بڑا کام لینا ہے‘‘ اس لیے اس مجبوری کا خیال رکھا جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پارلیمانی پارٹی کے پہلے اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ خیبر پختونخوا میں صاف ستھری حکومت بنائی جائے: عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’خیبر پختونخوا میں صاف ستھری حکومت بنائی جائے‘‘ یعنی پہلے اسے اچھی طرح صابن لگا کر دھویا جائے اور سارا میل نکال کر سکھایا جائے اور بعد ازاں احتیاط سے استری کرلیا جائے، تاہم اسے کلف ہرگز نہ لگایا جائے کیونکہ اکڑی ہوئی حکومت جلدی ٹوٹ جایا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپشن کے خلاف موثر قدم اٹھائیں‘‘ اگرچہ جثیّ کے لحاظ سے وزیراعلیٰ کا قدم کافی ہلکا پھلکا ہے؛ تاہم اسے زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سادگی اور شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے عملی قدم اٹھائے جائیں‘‘ جبکہ شفافیت کے حوالے سے انتخابات کے دوران بھی کافی تجربہ حاصل ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’زبانی دعوے نہ کیے جائیں بلکہ کچھ کرکے دکھائیں‘‘ کیونکہ زبانی دعوے لوگوں کو یاد رہتے ہیں اور پورے نہ ہونے پر حکومت کے لیے بہت زیادہ بدمزگی کا باعث بنتے ہیں جبکہ بدمزگی کا مزہ ہم انتخابات میں پہلے ہی کافی چکھ چکے ہیں اور مزید کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں خصوصی احتیاط سے کام لیا جائے کیونکہ بقایا وقت ہم نے محتاط رہ کر ہی گزارنا ہے۔ آپ اگلے روز اپنی قیام گاہ زمان پارک میں ایک پارٹی اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ نیٹو افواج کو واپسی کا راستہ دینے کا فیصلہ مشاورت سے کریں گے: پرویز خٹک خیبرپختونخوا کے نومنتخب وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ’’نیٹو افواج کو واپسی کا راستہ دینے کا فیصلہ اتحادیوں کے مشورہ اور عوامی خواہشات کے مطابق کریں گے‘‘ اور دیکھیں گے کہ آ بیل مجھے مار کے محاورے پر عمل کرنے کی ہمت کس کس میں موجود ہے کیونکہ ڈرون گرانے کا اعلان بھی ان بیانات میں سے تھا جو الیکشن سے پہلے دیئے جاتے ہیں جبکہ بعد ازاں ان کی نوعیت قدرتی طور پر تبدیل ہوجایا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ڈرون حملوں کو روکنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے‘‘ اس لیے ہمیں جان پر خواہ مخواہ کھیلنے کا مشورہ نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا ’’ہمیں معلوم نہیں کہ طالبان کون لوگ ہیں اور ان کے کتنے گروپس ہیں۔‘‘ اس لیے ان کے بارے میں پالیسی وضع کرنے کے لیے ان سے ہمارا مکمل تعارف کرایا جائے اور ان کے گروپس کی صحیح تعداد بتائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام نے ووٹ دیا ہے، انہیں مایوس نہیں کریں گے‘‘ اور اگر وہ ہماری کارکردگی سے خود ہی مایوس ہوجائیں تو ان کی مرضی، ہم کیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم تو اپنے صوبے کو بچانا چاہتے ہیں۔‘‘ چنانچہ دوسرے صوبوں کو بچانے کے لیے وہ جانیں اور ان کے وزرائے اعلیٰ کیونکہ ہر کسی کو اپنا اپنا کام اپنے دائرے میں رہ کر کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز پارٹی چیئرمین سے فون پر بات کررہے تھے۔ آج کا مطلع زمین پر ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں