پی پی کی شکست پر ستمبر میں بات کروں گا: صدرزرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’میں پی پی کی شکست پر ستمبر میں بات کروں گا‘‘ کیونکہ یہ اس لمبی چوڑی کرپشن ہی کا شاخسانہ ہے جو کسی سازش کے تحت کروائی گئی اور جس کے بارے میں ہم روز اول ہی سے واویلا کرتے رہے ہیں لیکن ہماری کسی نے نہ سنی اور اس پر توجہ نہ دی حتیٰ کہ بالآخر ہمیں اس کا نتیجہ بھگتنا پڑا حالانکہ ناکردہ گناہ کی سزا اتنی بڑی نہیں ہونی چاہیے جبکہ سید یوسف رضا گیلانی سے بھی ایسے ایسے کام کروائے گئے جو کبھی ان کے خواب و خیال میں بھی نہ آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دعا ہے کہ نوازشریف بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح متفقہ وزیراعظم ہوں‘‘ اور بالآخر اسی انجام سے دوچار ہوں یعنی نااہل بھی قرار پائیں تاکہ آئندہ کے لیے ہمارا راستہ صاف ہوسکے ورنہ میاں صاحب سے گلوخلاصی کی اور تو کوئی صورت نظر نہیں آتی، ماسوائے عمران خان، جنہیں لفٹر پر چڑھنے کا بے حد شوق ہے جو ہمارے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ صدارتی الیکشن لڑنے کا حق نہیں بنتا‘‘ کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو قرب قیامت کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوسکتی ہے جبکہ اس بدنصیب ملک پر ہمارے ہاتھوں پہلے بھی اچھی خاصی قیامت گزر چکی ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔ مشرف کو محفوظ راستہ دیا گیا تو افسوس ہوگا: سعد رفیق نوازلیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’اگر مشرف کو محفوظ راستہ دیا گیا تو افسوس ہوگا‘‘ مشرف کی روانگی پر سوائے افسوس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہم نے حکومت بھی کرنی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرکے ہرگز نہیں کی جاسکتی جس نے پہلے بھی ہمارا چھابہ الٹا دیا تھا‘ چنانچہ میاں صاحب نے بھی اس موضوع پر احتیاطاً کافی نرمی اختیار کرلی ہے تاکہ تاریخ کو اپنے آپ کو دہرانے کا موقع نہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کے حق میں ہوں‘‘لیکن جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، ہمیں اس کا موقع ہی نہیں ملے گا کیونکہ میاں صاحب کے حلف ا ٹھانے سے ایک دن پہلے ہی موصوف کی رخصتی واقع ہوجائے گی اگرچہ انہیں واپسی کامحفوظ راستہ دینے کا مینڈیٹ نگران حکومت کو حاصل نہیں ہے لیکن ملک عزیز میں کسی بھی طرح کوئی بھی مینڈیٹ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کے لیے تجربہ بھی درکار ہے اور ہمت مردانہ بھی۔ انہو نے کہا کہ ’’نمائندوں کو عوام سے رابطہ رکھنا چاہیے‘‘ اگرچہ یہ ہماری ملکی سیاست کی روایات کے سراسر خلاف ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کررہے تھے۔ وفاقی حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کل کریں گے:مولانا فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’وفاقی حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کل کریں گے‘‘ اگرچہ ہم آج کا کام کل پر چھوڑنے میں یقین نہیں رکھتے تاہم میاں صاحب سے ملاقات میں یہ طے ہوجائے گا کہ وہ ہمیںحکومت میں شامل کرنے کے حوالے سے کس قدر سنجیدہ ہیں جو ہماری عاجزانہ ترجیحات پر عملدرآمد پر ہی منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سپیکر شپ کے لیے ہم خیر سگالی کے طور پر نوازلیگ کو ہی ووٹ دیں گے‘‘ تاہم خیر سگالی کا مطلب صرف خیرسگالی ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں جنہیں میاں صاحب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کیونکہ اب وہ کافی سیانے ہوچکے ہیں اور ہماری صحبت میں رہ کر مزید ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس کا کما حقہ اہتمام کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہورہی ہے‘‘ بشرطیکہ ہمیں کیک میں سے پورا پورا حصہ مل جائے کیونکہ ہر کوئی اسی خاطر تگ و دو کررہا ہے جبکہ اکّل خوری کو کسی طرح بھی مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس سلسلے میں فریق ثانی کو زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی سے روشنی حاصل کرنی چاہیے جو ہر طرف سے باعث برکت بھی ہے اور مل جل کر کھانا پینا باعث ثواب بھی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ گھمبیر ملکی حالات کو ایک جماعت ٹھیک نہیں کرسکتی: گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’گھمبیر ملکی حالات کو ایک جماعت ٹھیک نہیں کرسکتی‘‘ لہٰذا بجائے اس کے کہ نئی حکومت ہم معصوموں کا احتساب شروع کردے، اسے ہماری طرف تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے کیونکہ ملکی حالات گھمبیر بنانے میں سب سے زیادہ حصہ ہمارا ہی ہے۔ اس لیے ہم ہی جانتے ہیں کہ اسے ان حالات سے کیونکہ نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سب کو کردار ادا کرنا ہوگا‘‘ جیسا خاکسار نے ادا کیا اور ایک مثال قائم کردی ہے اور یہ راز کی باتیں ہم سے سیکھی جاسکتی ہیں کیونکہ ویسے بھی انسان عمر بھر سیکھتا ہی رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نئی حکومت کو ڈرون حملے روکنے کے لیے واضح پالیسی بنانا ہوگی‘‘ جو اگرچہ ہمیں بنانی چاہیے تھی لیکن ہم دیگر ضروری کاموں میں بری طرح، بلکہ اچھی طرح مصروف رہنے کی بنا پر نہیں بنا سکے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہوسکتا ہے تاکہ وہ پوری خوبصورتی سے سر انجام پا سکے اور رہتی دنیا تک یاد گار بھی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلزپارٹی نے مفاہمت کی سیاست ملک اور جمہوریت کے لیے اختیار کی‘‘ اور اس کے نتیجے میں ملک اور جمہوریت پر جو خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں عمران خان کی عیادت کے بعد میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ تحریک انصاف سے اتحاد خیبرپختونخوا کی حد تک ہے: آفتاب شیرپائو قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا ہے کہ’’تحریک انصاف سے اتحاد خیبرپختونخوا کی حد تک محدود ہے‘‘ کیونکہ صوبے میں تو ہمیں ایک آدھ وزارت بھی مل سکتی ہے جبکہ تحریک ،مرکز میں خود اپوزیشن میں ہے، ہمیں کیا دے گی، اس لیے اصولی سیاست کا تقاضا بھی یہی ہے اور یہ سبق ہم نے بزرگوار مولانا فضل الرحمن صاحب سے سیکھا ہے کہ جہاں سے کچھ مل سکتا ہو اسی طرف جانا چاہیے تاکہ عوام کے ساتھ ساتھ اپنی خدمت بھی ہوسکے، بلکہ عوام تو اپنی خدمت کرنا خود بھی سیکھ گئے ہیں کیونکہ جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوں گے اوراپنے لیڈروں کی طرف دیکھتے رہیں گے، وہ کبھی ترقی نہیں کرسکیں گے جبکہ ساری دنیا اتنی ترقی کر گئی ہے اور پاکستان کے سست الوجود عوام وہیں پر کھڑے ہیں جہاںپہلے تھے اور ہم ان کے منتخب نمائندے اس پر تشویش میں مبتلا ہیں کہ آخر ان کا کیا بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پختونوں کی سیاست میں خلا کو سابق صوبائی حکومت پُر نہیں کرسکی‘‘ کیونکہ صرف کرپشن سے خلا پُرنہیں ہوا کرتا، اس کے لیے ا ور بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، چنانچہ ہماری جماعت اور بھی بہت کچھ کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ صرف کرپشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور ہم بھی اپنے تجربے کی بنا پر اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک پریس کانفرنس کررہے تھے۔ آج مطلع آپ کی وقتاً فوقتاً مہربانی کے بغیر کیسے چل سکتی ہے گاڑی تیل پانی کے بغیر