قدرتی آفات سے پاکستان غذائی قلت کا شکار ہوا …صدرزرداری صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’قدرتی آفات کی وجہ سے پاکستان غذائی قلت کا شکار ہوا‘‘ جو ملک کی تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔ ہمارے پانچ سالہ دور میں غذائی قلت کے ساتھ ساتھ بجلی اور روزگار وغیرہ کی قلت بھی پیدا ہوئی جس پر نئی حکومت قابو پانے کی کوشش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ‘‘ جیسا فعال کردار سابق وزرائے اعظم وغیرہ نے ادا کیا تھا لیکن احسان فراموش قوم نے انتخابات کے دوران اس کا بھی کوئی خیال نہ رکھا اور ہمیں سیٹوں کی قلت سے دوچار کردیا چنانچہ اب اس قلت کی تلافی کے لیے دوبارہ ایسا ہی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک بیان جاری کررہے تھے۔ عوام کو تبدیلی دکھائیں گے …عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’عوام کو تبدیلی دکھائیں گے ‘‘ کیونکہ یہ تبدیلی عید کے چاند کی طرح ہوگی جوکہ ہرآدمی کو دکھائی نہیں دیتا اور اس کے لیے رویت ہلال کمیٹی سے مددلینا پڑتی ہے؛ البتہ اس بات کا فیصلہ فی الحال نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تبدیلی ہم عوام کو کب دکھائیں گے کیونکہ ابھی تو ہم خود دوربینیں لگاکر بیٹھے ہوئے ہیں چنانچہ جونہی ہمیں اس کی جھلک نظر آئی عوام کو بھی دکھا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپٹ لوگوں کا احتساب ہوگا‘‘ اگرچہ ہمیں اس کے لیے مینڈیٹ نہیں ملا لیکن جس طرح نگران وزیراعظم نے مینڈیٹ کے نہ ہوتے ہوئے اور جانتے بوجھتے ہوئے بیسیوں افراد کو ادھر ادھر کرنے کے علاوہ اپنے صاحبزادے کو من پسند نوکری اور گریڈ بھی دے دیا، اسی طرح ہم بھی کرپٹ لوگوں کے احتساب کی کوشش کریں گے اور اگر نہ کرسکے تو بھی کوئی پروا نہیں کیونکہ مذکورہ اقدامات معطل کرنے کے علاوہ نگران وزیراعظم کا کسی نے کیا بگاڑ لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’خیبرپختونخوا میں مثالی حکومت بنے گی ‘‘ اور یہ بات میں ایک سو پچھتر ویں بار کہہ رہا ہوں اس لیے اگر اس کے باوجود نہ بنی تو کیاکرسکتا ہوں۔ آپ اگلے روز ایک وفد سے گفتگو کررہے تھے۔ توانائی اور معاشی بحران کا حل ہماری اولین ترجیح ہے…مشاہد اللہ ن لیگ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ ’’توانائی اور معاشی بحران کا حل ہماری اولین ترجیح ہے‘‘ جبکہ فی الحال تو مولانا صاحب کی دی ہوئی ترجیحات ہی نے ہماری مت مار رکھی ہے، اگر ان سے جانبر ہوگئے تو اپنی اولین ترجیح کی طرف بھی کچھ توجہ دے سکیں گے۔ اول تو اس کے کوئی خاص امکانات نظر نہیں آتے کیونکہ وہ اپنی ترجیحات کے تناظر سے باہر نکلتے ہی نہیں، حالانکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ میاں صاحب خود ہی بھاری اکثریت سے وزیراعظم بن رہے ہیں اور انہیں اس طرح کی کوئی سودے بازی کرنے کی کچھ ایسی ضرورت بھی نہیں، تاہم وہ اپنی وضع داری کے تحت ان ترجیحات پر غوروخوض کررہے ہیں اور حلف اٹھانے کے بعد جس طرح ان کی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہونے والا ہے اس کے پیش نظر یہ غوروخوض مزید ملتوی ہوتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نوازشریف ایک سیکنڈ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے ‘‘ جبکہ صاحب موصوف اب تک ان کے کئی منٹ، گھنٹے اور دن ضائع کرچکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ مولانا صاحب کے حق میں نکلنے کا کوئی خاص امکان نہیں ہے ۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹیلیویژن پروگرام میں بات چیت کررہے تھے۔ شوکت عابد ؔ کراچی سے شوکت عابد نے ہماری فرمائش پر اپنی شاعری کے کچھ خوبصورت نمونے بھجوائے ہیں جو قارئین کے ساتھ شیئر کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ شاعری انہوں نے گاڑی میں سفر کرتے ہوئے تخلیق کی ہے۔ ان اشعار کی روانی سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اشعار چلتی گاڑی ہی میں کہے گئے ہیں۔ بلکہ ان کی روانی گفتار کا بھی یہ عالم ہے کہ فون پر جوکچھ میں سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق آپ وہاں ماس کمیونیکیشن وغیرہ پر لیکچر دیتے ہیں : جانا ہے اسے جتنا ، مانا تو نہیں اتنا ڈھونڈا تھا جسے اتنا، پایا تو نہیں اتنا ہرایک قدم پر اب احساس یہ ہوتا ہے لگتا تھا مجھے جتنا، رستہ تو نہیں اتنا کرتا ہوں کئی باتیں میں دل سے چھپا کر بھی چالاک ہوں میں جتنا، لگتا تو نہیں اتنا ………… سوالِ مسلسل مری گفتگو ہے تری خامشی اک جوابِ مسلسل ………… ہے راستہ یہ دل کا اور، راستہ بہت ہے گو دیکھتا نہیں دل پہچانتا بہت ہے تو نے تو کم کہا تھا ہم نے سنا بہت ہے ………… تجھے چھوڑ کر ہم کہاں جائیں گے ہمیں چھوڑ کر تُو کہاں جائے گا لٹایا ہے جوکچھ وہ کام آئے گا بچایا ہے جو رائیگاں جائے گا جلے گا مرا دل بہت دیر تک بہت دور تک یہ دھواں جائے گا ………… وہ جنہیں بات کرنی آتی ہے بات کرتے نظر نہیں آتے ………… راہ میں جو بچھڑ گئے عابدؔ اب انہیں میں کہاں تلاش کروں آج کا مطلع جھوٹ سچ کو دیکھ لیتے، یہ تمہارا کام تھا بات سن لیتے کبھی، اتنا ہی سارا کام تھا