لوڈشیڈنگ سمیت تمام مسائل حل کریں گے …نوازشریف وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’لوڈشیڈنگ سمیت تمام مسائل حل کریں گے ‘‘ لیکن اس میں قدرے تاخیر ہوسکتی ہے کیونکہ جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں، میڈیا نے یہ کہہ کہہ کر میرا ناک میں دم کررکھا ہے کہ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاکر تاریخ رقم کریں گے جوکہ کافی دقت طلب اور صبرآزما کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب کسی طالع آزما کی گنجائش نہیں‘‘ تاہم ایسے حضرات گنجائش دیکھ کر تھوڑا آتے ہیں بلکہ پہلے گنجائش پیدا کرلیتے ہیں جوکہ نہایت بری بات ہے۔ آپ اگلے روز وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پہلی بار اسمبلی سے خطاب کررہے تھے۔ دنیا دیکھے گی حقیقی اپوزیشن کیسی ہوتی ہے …عمران خان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’دنیا دیکھے گی کہ حقیقی اپوزیشن کیسی ہوتی ہے‘‘ اور، یہ بھی اچھا ہوا ورنہ اگر ہم کامیاب ہوجاتے تو دنیا کو یہ بھی دکھانا پڑتا کہ حقیقی حکومت کیسی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلد اسمبلی میں آئوں گا، اور یہ بھی اچھا ہی ہوا ورنہ اسمبلی میں موجود ہوتا تو مخالفوں کو حلف اٹھاتے بھی دیکھنا پڑتا جنہوں نے میرے بار بار اور بہ آواز بلند کہنے کے باوجود کہ میری واری آن دیو ،وہ پھر اپنی ہی باری لے کر بیٹھ گئے ہیں، آخر خودغرضی کی بھی کوئی حدہوتی ہے، چنانچہ ملک میں ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ کچھ بھی تبدیل ہونے کو تیار نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ’’انتخابی نتائج بے نقاب ہونے پر لوگوں کے منہ کھلے رہ جائیں گے‘‘ اور جنہیں وہ خود بھی بند نہیں کرسکیں گے اور کھانا وغیرہ بھی کھلے منہ سے ہی کھانا پڑے گا اور، یہ ملک میں دوسری بڑی تبدیلی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’فرینڈلی اپوزیشن کے دن گزرگئے ‘‘ جس کا مجھے بہت افسوس ہے کیونکہ اس میں کافی سہولتیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملوں کا باب بند کرنے کے لیے صرف بیانات تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے‘‘ کیونکہ نمونے کے طورپر ایک آدھ ڈرون گرا کر بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے، اور، جوکچھ ہوگا وہ ہمارے لیے خاصا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اگلے روز روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو انٹرویو دے رہے تھے۔ اب کسی کو کرپشن کرنے کے لیے سوبار سوچنا پڑے گا …شہباز شریف نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’اب کسی کو کرپشن کرنے کے لیے سوبار سوچنا پڑے گا‘‘ اور جو لوگ جلدی جلدی سوچتے ہیں، انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ،کیونکہ اگر سوچنے میں ایک منٹ بھی لگے تو سوبار سوچنے سے یہ مدت سومنٹ میں ختم ہوجائے گی۔ بہرحال یہ ان حضرات کی اپنی اپنی توفیق اور بساط پر منحصر ہے کہ وہ سوچنے کا یہ نیک کام کتنی جلدی نمٹاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام سے سادہ اکثریت مانگی، انہوں نے دوتہائی اکثریت دے دی‘‘ تاہم وہ اپنے مطالبات کو بھی سادگی تک ہی محدود رکھیں اور انہیں دوتہائی کرنے سے بازرہیں ورنہ وہ مجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’افسروں کو عوام کی خدمت کرنا ہوگی‘‘ جوکہ انہوں نے پہلے بھی بہت کی تھی اور عوام ان سے خوش بھی بہت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کی محبت کا جواب خدمت سے دیں گے‘‘ اور ، یہ کام افسروں کے ذمے لگادیا گیا ہے کیونکہ ہم فی الحال خدمت کروانے میں مصروف ہیں کہ الیکشن کی بھاگ دوڑ سے کافی تھکاوٹ واقع ہوچکی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ جماعت پر مافیا کا قبضہ ہوچکا ہے …فوزیہ قصوری تحریک انصاف کی ویمن ونگ کی صدر فوزیہ قصوری نے تحریک سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جماعت پر مافیا کا قبضہ ہوچکا ہے ‘‘ اور مجھے اس مافیا میں شامل کرنے سے انکار کردیا گیا، حتیٰ کہ الیکشن میں ٹکٹ دینے سے بھی انکار کردیا گیا جبکہ میں اپنی دوہری شہریت بھی ترک کرچکی تھی اور اگرچہ یہ کافی تاخیر سے ہوسکا لیکن آخر ہرکام کاایک وقت مقرر ہوتا ہے جیسا کہ پارٹی چھوڑنے کا بھی میرا وقت مقررتھا کیونکہ تقدیر کا لکھاکون ٹال سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے نواز لیگ کے ایما پر ایسا کیا ہے‘‘ اگرچہ ان کے پاس بھی میرے لیے ٹکٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے لیکن، آخر اصول بھی کوئی چیز ہوتا ہے ، جبکہ عتیقہ اوڈھو بھی شاید میرے استعفے ہی کے انتظار میں تھیں جنہوں نے میرے اعلان کے فوراً بعد ہی تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرے جیسے ہزاروں کارکن پارٹی سے مایوس ہیں‘‘ جن کی علیحدگی کا مجھے بے صبری سے انتظار ہے لیکن افسوس کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے‘ لوگوں کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔ پیپلزپارٹی کا احیاء …؟ ہمارے ایک نہایت عزیز دوست لکھتے ہیں کہ ’’پیپلزپارٹی دوبارہ عروج حاصل کرے گی ۔بشیر ریاض ، فرحت اللہ بابر اور واجد شمس الحسن کو اس میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اگر کسی آدمی میں گھس جائیں تو مشکل ہی سے نکلتی ہیں، اور ، شاید اسی پرانے تعلق کی بناء پر میں نے بھی پچھلے دنوں لکھا تھا کہ پیپلزپارٹی اس راکھ سے دوبارہ جنم لے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس جماعت کے معاملات انہی لوگوں کے سپرد رہیں گے جن کی بدحکمرانی ، کرپشن اور بدعنوانی سے یہ اس حالت کو پہنچی ہے تو بشیر ریاض اور فرحت اللہ بابر جیسے صاف ستھرے اور نیک نام لوگ بھی اس سلسلے میں کیاکرلیں گے۔ چنانچہ جب تک پارٹی ان مگرمچھوں سے اپنی جان نہیں چھڑاتی یا انہیں پس منظر میں نہیں دھکیل دیتی، اس کے احیاء کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہوہی نہیں سکتا۔ حتیٰ کہ خود آصف علی زرداری بھی پارٹی کو اس نوبت تک پہنچانے میں شامل ہیں کیونکہ مذکورہ بالا عناصرکی اگر صاحب موصوف نے حوصلہ افزائی نہیں کی تو ان کی مہمات سے چشم پوشی ضرور اختیار کیے رکھی چنانچہ زرداری صاحب کو بھی خود پس پردہ رہ کر بلاول کو آگے کرنا چاہیے، تاہم بلاول کا بھی ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف بینظیر بھٹو ہی کے نہیں، آصف علی زرداری کے بیٹے بھی ہیں۔ آج کا مقطع وہی پسینہ پسینہ ہوں رات دن کہ ظفرؔ ہوا یہاں مری رفتار کے برابر ہے