خسرہ کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام ہوگا …میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’خسرہ کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام ہوگا‘‘ اگرچہ جنگی بنیادوں پر یہ کام ہمارے سابق دور میں بھی ہوسکتا تھا لیکن ہم امن پسند آدمی ہیں اور جنگ وجدل میں یقین نہیں رکھتے، تاہم اب تنگ آمد بجنگ آمد، کے اصول کے تحت یہ کام جنگی بنیادوں پر کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں کسی کا بہانہ نہیں سنوں گا‘‘ کیونکہ جتنے بھی بہانے میں نے سننے تھے، سابقہ دور میں ہی سن لیے تھے، اس لیے اب ان بہانوں سے کام نہیں چلے گا، البتہ نئے بہانوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بچے مررہے تھے اور متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے رہے ‘‘ لیکن اب وہ خاموش تماشائی نہیں بن سکتے، بلکہ انہیں اس دوران باتیں وغیرہ بھی کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’مربوط ایکشن پلان کی منظوری دے دی گئی ہے ‘‘ اس لیے خسرے کی وبا کو اب خودہی خیال کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بچوں کو بے آسرا چھوڑ دیا جائے ‘‘ کیونکہ اب تک جوانہیں بے آسرا چھوڑا گیا ہے ، اسی کو کافی سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ وقت آرام سے بیٹھنے کا نہیں‘‘ بلکہ اس میں کچھ بے آرامی بھی شامل ہونی چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ پرامن انتقال اقتدار جمہوریت کی فتح ہے …گیلانی نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’پرامن انتقال اقتدار جمہوریت کی فتح ہے‘‘ اگرچہ یہ ہماری ان فتوحات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جو سب نے مل جل کر حاصل کیں اور جن سے ایک زمانہ بخوبی واقف ہے اور جن سے ہمارے سر فخر سے بلند ہوگئے ہیں کیونکہ ان فتوحات کا حصول ہم سرنیہوڑائے ہوئے اور پوری دلجمعی سے کرنے میں مصروف تھے، اب کہیں جاکر سر اٹھانے کا موقعہ ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت میں تمام مسائل کا حل ہے ‘‘ اور اسی جمہوریت سے جس قدر ہمارے مسائل حل ہوئے ہیں، انہیں دیکھنے کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ ،مشک آنست کہ خود ببوئدنہ کہ عطار بگوید؛ چنانچہ اس مشک کا پھیلائو عوام کے مشامِ جاں میں بھی پھیلا ہوا ہے جس سے مراد ہم خود ہی ہیں کیونکہ اب ہم میں اور عوام میں کوئی فرق باقی نہیں رہا اور حالیہ انتخابات میں عوام نے ہمیں بھی اپنے ہی جیسا کردیا ہے، اور، لگتا ہے کہ یہ کایا کلپ ہمیشہ ہی کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلزپارٹی ایوان میں بطور اپوزیشن تعمیری کردار ادا کرے گی‘‘ کیونکہ اپنی شاندار تعمیر کے بعد ہمیں اس کا کافی تجربہ بھی حاصل ہوگیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ سندھ میں مقامی سندھی بولنے والوں کی حکومت ہے …الطاف حسین متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین نے کہا ہے کہ ’’سندھ میں مقامی سندھی بولنے والوں کی حکومت ہے ‘‘ اگرچہ اس میں شامل ہونے کی دعوت ہمیں بھی دی گئی تھی لیکن وہ محض رسمی تھی جس میں کوئی گرم جوشی وغیر ہ شامل نہیں، تاہم اب اگر صدر زرداری نے اصرار کیا تو ملکی مفاد میں یہ فیصلہ تبدیل بھی کرسکتے ہیں، ویسے بھی حالیہ فیصلہ ملکی مفاد کے کچھ اتنا زیادہ حق میں نہیں تھا جس پر حسب معمول نظرثانی بھی ہوسکتی ہے جو ہم ملکی مفاد میں ہمیشہ سے ہی کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جومہاجر گزشتہ 66برس سے سندھ میں آباد ہیں، وہ حکومت سے باہر ہیں ‘‘اور، چونکہ وہ ہمیشہ ہی حکومت میں شامل رہے ہیں، چاہے وہ کسی کی بھی ہو، اس لیے بھی بہت عجیب لگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت کا مطلب عوام کی حکمرانی ہوتا ہے‘‘ جوسابقہ ادوار میں ہمیشہ بہت زور وشور سے رہی ہے لیکن بدقسمتی سے اب اسے خواص کی حکمرانی بنادیا گیا۔ آپ اگلے روز لندن اور پاکستان کی مشترکہ رابطہ کمیٹیوں سے خطاب کررہے تھے۔ ن لیگ ہماری پارٹی پر الزامات لگانے کی بجائے اردگرد کے حالات دیکھے…امین فہیم پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ ’’ن لیگ ہماری پارٹی پر الزامات لگانے کی بجائے اردگرد کے حالات دیکھے‘‘ جواتنے تبدیل ہوگئے ہیں کہ پہچانے ہی نہیں جاتے کہ کہاں دن رات ہماری موجیں لگی ہوئی تھیں اور کہاں اب پھرتے ہیں میرخوار کوئی پوچھتا نہیں، چنانچہ ثابت ہوا کہ اس دنیا کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ یہ کسی وقت بھی آنکھیں پھیر سکتی ہے ۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک ٹی وی شو میں گفتگو کررہے تھے۔ میاں نواز شریف نے قابل اور قریبی افراد کو وزارتیں دیں …کائرہ پیپلزپارٹی کے رہنما قمرالزمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’میاں نواز شریف نے قابل اور قریبی افراد کو وزارتیں دیں‘‘ اگرچہ ہمارے دور میں بھی قریبی افراد کو وزارتیں دی گئیں اور مختلف کمپنیوں اور اداروں کے سربراہ بھی قریبی افراد ہی لگائے لیکن بدقسمتی سے وہ قابل نہیں تھے؛ تاہم وہ بعض دیگر معاملات میں بیحد قابل تھے اور انہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا کر چھوڑا کیونکہ قابل افراد زیادہ تر ایسے تھے جو قریبی نہیں تھے، اس لیے انہیں موقعہ نہ مل سکا جس کا ہمیں بے حد افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نئی کابینہ میں چودھری نثار ایک اچھی چوائس ہیں‘‘ لیکن ہمارے پاس تو قریبی حضرات کی بھرمارہی اتنی تھی کہ کوئی دوسری چوائس ہی نہ رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’وہ اپنے تجربے کی روشنی میں بہتر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘ اگرچہ ہمارے ساتھی بھی کافی تجربہ کار ہیں لیکن ان کے تجربے کی نوعیت ذرا مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں میڈیا کچھ زیادہ ہی آزاد ہوگیا ہے‘‘ اس لیے اسے بھی لگام دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نواز حکومت کو بھی پریشانی میں مبتلا کرسکتا ہے، اس لیے اسے ذرا کس کر رکھیں گے تو حکومت ہی کا فائدہ ہے جبکہ اس حکومت کا فائدہ ہی ہماری ترجیح اول ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک ٹی وی شو میں گفتگو کررہے تھے۔ آج کا مطلع وہ مزدوری ہوکہ محبت، اپنا کام، ظفرؔ رکتا بھی رہتا ہے لیکن چلتا رہتا ہے