جمہوریت میری‘ بینظیر اور نوازشریف کی قربانیوں کا ثمر ہے… صدر زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’جمہوریت میری‘ بینظیر اور نوازشریف کی قربانیوں کا ثمر ہے‘‘ اور میری قربانیوں سے تو ایک دنیا واقف اور معترف بھی کیونکہ جیل جانا بجائے خود بہت بڑی قربانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت آئین توڑنے والوں کو سزا دے‘‘ جبکہ آئین توڑنے والے کو جاتے ہوئے گارڈ آف آنر پیش کرنا بھی ایک سزا ہی تھی کہ وہ شرمندہ ہو کر اپنے اعمال پر غور کرے۔ انہوں نے کہا کہ ’’غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل کی راہیں متعین کرنا ہوں گی‘‘ جو کہ یوسف رضا گیلانی‘ رحمن ملک‘ پرویز اشرف اور منظور وٹو کی سربراہی میں اس کا آغاز بھی کردیا گیا ہے اور مستقبل کی راہیں ان زعماء کی روشنی سے روشن ہو کر بُقۂ نور بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’محاذ آرائی کی بجائے مفاہمت کی ضرورت ہے‘‘ جبکہ پرانے مقدمات کو کھول کر گڑے مُردے اُکھاڑنے سے بڑی محاذ آرائی اور کوئی نہیں ہوسکتی اور مفاہمت میں تو فائدے ہی فائدے ہیں جس سلسلے میں ہماری روشن مثال سب کے سامنے ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ ڈرون حملوں کے لیے اجازت کی پالیسی اب نہیں چلے گی…وزیراعظم وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’ڈرون حملوں کے لیے اجازت کی پالیسی اب نہیں چلے گی‘‘ ہم ان پر احتجاج کرتے رہیں گے کیونکہ احتجاج کرنا ہمارا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کو سامنے رکھ کر کام کیا تو انقلاب آ جائے گا‘‘ اور اگراپنے آپ کو سامنے رکھا تو اس انقلاب کی نوعیت کچھ اور ہوگی‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’لوڈشیڈنگ ختم کر کے دم لیں گے‘‘ اور اس وقت تک دم کو روکے رکھیں گے‘ چاہے کچھ بھی ہو جائے کیونکہ لوڈشیڈنگ کو ختم کرنا آسان نہیں جتنا انتخابات سے پہلے نظر آ رہا تھا‘ حیرت ہے کہ چیزوں کی نوعیت اتنی جلدی کیسے بدل جاتی ہے‘ حتیٰ کہ خواجہ صاحب کو بھی کہنا پڑا ہے کہ اسے ختم کرنے کی کوشش کریں گے‘ میعاد نہیں بتا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ’’ امریکہ کے سامنے معاملہ بھرپور انداز میں اٹھائیں گے‘‘ اور امید ہے کہ ہمارے جفاکش اور ایثار پیشہ عوام حسبِ معمول اسی کو کافی سمجھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں‘‘ کیونکہ ذاتی مفاد کا باب ایک عرصہ سے بند کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کی امیدیں جائز ہیں‘‘ جو ہر بار ہی جائز ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ روزِ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ اگلے روز کابینہ سے خطاب کر رہے تھے۔ جاوید ہاشمی کی زبان میری طرح پھسل گئی تھی… عمران خان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’جاوید ہاشمی کی زبان میری طرح پھسل گئی تھی‘‘ جو میں نے ایک تقریر میں کہہ دیا تھا کہ عوام شیر پر مہر لگائیں؛ چنانچہ عوام نے میرے حکم کی تعمیل میں ایسا ہی کیا اور جس کے نتیجے میں ہم دھرنے دے دے کر پھاوے ہو گئے ہیں‘ البتہ ہاشمی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی زبان نہیں پھسلی تھی اور انہوں نے سوچ سمجھ کر ایسا کہا تھا کیونکہ زبان جب پھسلتی ہے تو کہنے والے کو بھی پتہ نہیں چلتا‘ جیسا کہ مجھے بہت بعد میں اس کا احساس ہوا اور امید کرنی چاہیے کہ ہاشمی صاحب کو بھی جلد ہی اس کا ادراک ہو جائے گا۔ اس لیے زبان کو باندھ کر رکھنے کا کوئی نہ کوئی بندوبست کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’حالیہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی ماضی میں مثال نہیں ملتی‘‘ اور اگر مل گئی تو اسے روٹین کا معاملہ سمجھ کر خاموش ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے روکنے کے لیے نوازشریف سے مل کر پالیسی بنائیں گے‘‘ اور شہرۂ آفاق مفاہمت کی طرف یہ ہمارا پہلا قدم ہوگا کیونکہ انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد کے معاملات مختلف ہوتے ہیں کہ کس چیز کے بارے میں کیا کہنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر دھاندلی کی تحقیقات نہ کرائی گئیں تو عید کے بعد ہم سڑکوں پر ہوں گے‘‘ کیونکہ ہم عید کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں اپنی رہائشگاہ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ بُری خبر‘ اچھی خبر دو دوست کہیں ملے تو ایک نے پوچھا‘ کیا خبریں ہیں تو دوسرے دوست نے جواب دیا کہ ایک بُری خبر ہے اور ایک اچھی۔ جس پر پوچھا گیا کہ بُری خبر کیا ہے تو جواب ملا کہ پچھلے ہفتے میں نے جو مہنگا امپورٹڈ جوتا خریدا تھا‘ اس کا ایک پائوں میرا کُتا کھا گیا ہے اور اچھی خبر؟ یہ پوچھنے پر اس نے کہا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ آج وہ اس کا دوسرا پائوں بھی کھا گیا ہے! سو‘ بُری خبر تو یہ تھی کہ ہماری ٹیم جنوبی افریقہ سے میچ بُری طرح ہار گئی جبکہ اپنی طرف سے وہ حسبِ معمول اچھی طرح سے ہاری ہے۔ اور اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارے عزیز میاں یاور زمان اور نہایت عزیز دوست میاں عطا محمد مانیکا نے صوبائی کابینہ کے وزیر کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔ یاور زمان کے لیے اقتدار ایک خاندانی ورثے کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے پڑدادا خان صاحب میاں چراغدین ڈسٹرکٹ بورڈ ساہیوال کے منتخب سربراہ رہے۔ دادا‘ میاں غلام محمد متعدد بار مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ والد میاں محمد زمان دو بار وفاقی وزیر رہے اور عرصۂ دراز سے ضلع مسلم لیگ کے صدر چلے آ رہے ہیں۔ یاور زمان کے فرسٹ کزن میاں محمد منیر‘ جو ان کے ساتھ ہی رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں‘ بلدیہ اوکاڑہ کے منتخب چیئرمین رہ چکے ہیں۔ معروف سپورٹس مین ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیدار۔ میاں عطا محمد مانیکا ایک آدھ بار کو چھوڑ کر مسلسل پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ آپ ڈسٹرکٹ کونسل پاکپتن کے منتخب چیئرمین بھی رہے ہیں۔ کبھی اوکاڑہ کچہری آنا ہوتا تو میرے چیمبر میں ضرور تشریف لاتے۔ ایک بار، جب وہ میاں یٰسین وٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے تھے‘ تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا‘ کہیے انتخابی مہم کیسی جا رہی ہے تو کہنے لگے کہ ٹھیک ہی جا رہی ہے لیکن میاں یٰسین رُلہیٹ بہت ہے۔ (رُلہیٹ پنجابی کے لفظ رُلنے سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے رُلنے والا‘ یعنی جہاں گرد) اس کی وضاحت انہوں نے اس طرح سے کی کہ ایک میراثی نے حسبِ عادت کسی چودھری صاحب کے آگے دستِ سوال دراز کیا تو اس کے صاحبزادے ایک طرف ہو کر سوچنے لگے کہ اسے کس طرح ٹالا جائے کیونکہ یہ ہفتہ بھر پہلے ہی ایک بچھڑی لے کر گیا تھا؛ چنانچہ ایک نے تجویز پیش کی کہ اسے وہ بھینس دے دی جائے جو پچھلے سال چوری ہو گئی تھی۔ جس پر دوسرے نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رُلہیٹ بہت ہے‘ اس نے وہ بھی ڈھونڈ نکالنی ہے! ہماری طرف سے ان تینوں کو دلی مبارک باد…! آج کا مقطع ظفرؔ‘ وہ سب کے ساتھ آیا ہے اتنی دیر کے بعد اور‘ اس کو ہم نے تھوڑی دیر تنہا دیکھنا ہے