توانائی بحران پر کمیٹی قائم کردی ہے …نواز شریف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’توانائی بحران پر کمیٹی قائم کردی ہے ‘‘ جوماضی میں قائم کی گئی دیگر کمیٹیوں کی طرح اپنے حساب سے کام کرے گی اور ان سے ویسے ہی نتائج برآمد ہوں گے، بلکہ توانائی کے علاوہ دیگر جملہ بحرانوں پر بھی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جو ہمارے مسائل حل کریں گی اور خاکسار کو کچھ عرصہ آرام کا موقعہ ملے گا تاکہ اپنی تھکاوٹ دور کرسکوں کہ بھاری مینڈیٹ کا حلف ہی اتنا وزنی تھا کہ جس نے بری طرح تھکا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کے دکھوں کا مداوا کریں گے ‘‘ جس کے لیے بھی ایک عدد مداوا کمیٹی قائم کرنے کی دیر ہے، جس سے عوام خوش ہوجائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ناراض بلوچ رہنمائوں کے خدشات دور کیے جائیں‘‘ اور، اس سے پہلے ایک کمیٹی قائم کرکے انہیں پہاڑوں سے اتارنے کا کوئی بندوبست کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں گے ‘‘ اور اس بار ذرا مختلف قسم کی غلطیاں کریں گے کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے اور غلطی کرنے سے باز نہیں رہ سکتا، اور ہم بھی انسان ہیں، پیپلزپارٹی والوں کی طرح فرشتے نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز جنرل وائیں سے ملاقات اور عبدالمالک بلوچ سے گفتگو کررہے تھے۔ ڈرون حملے دہشت گردی میں اضافہ کررہے ہیں …عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’ڈرون حملے دہشت گردی میں اضافہ کررہے ہیں ‘‘ البتہ ان کے نتیجے میں جوبے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں، ان کی موت اسی طرح لکھی تھی اور اس کا ایک وقت مقرر تھا جس میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں ہوسکتی تھی، اور ہم تقدیر سے لڑائی نہیں لڑسکتے جبکہ دھاندلی کے خلاف لڑائی لڑتے لڑتے پہلے ہی ہمارا کچومر نکل چکا ہے کیونکہ دھرنوں میں لگاتار بیٹھنا ایک صبر آزما کام ہے، اگرچہ اس دوران لیٹنے اور سونے کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے جس میں دھرنوں کی کامیابی کا خواب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ آپ نے کہا کہ ’’موجودہ حکومت کو دہشت گردی اور کرپشن کے عفریت کا سامنا ہے ‘‘ اس کے علاوہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق اوپر سے اسے مولانا صاحب کا بھی سامنا ہے جس سے حکومت کی حالت انتہائی قابل رحم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ نواز شریف کا امتحان ہوگا‘‘ اور اگر حکومت یہ پرچہ خاکسار کے ساتھ مل کر حل کرے تو اچھے نمبروں سے پاس ہوسکتی ہے ورنہ اسے رعایتی نمبروں کی بھی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ آپ اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر جہانگیر ترین اور دیگر وفود سے ملاقات کررہے تھے۔ قومی اقتصادی کونسل میں پنجاب کی اکثریت پر تشویش ہے …خورشید شاہ قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ’’قومی اقتصادی کونسل میں پنجاب کی اکثریت پر تشویش ہے ‘‘ بلکہ ہمیں تو قومی اسمبلی میں بھی پنجاب کی اکثریت پر سخت تشویش لاحق ہے۔ حالانکہ ہم نے اپنے پنج سالہ دور میں ملک کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جبکہ کئی حضرات تو دن رات ہی اس کام میں لگے رہے اور یہ خدمت جہاں جہاں سے ہوسکتی تھی، بڑی محنت اور جانفشانی سے بروئے کار لائی گئی جو ملکی ترقی سے نمایاں بھی ہوچکی ہے لیکن بے عقل عوام نے اس خدمت کو سمجھا ہی نہیں حالانکہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے اور جملہ حضرات بار بار اپنے ہاتھ صابن سے دھوتے بھی رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے‘‘ اگرچہ وہاں ہماری حالت خاصی پتلی ہے، تاہم ہمارے حوصلے نہایت بلند ہیں حتیٰ کہ ان پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجٹ کو دیکھنے کے بعد حکمت عملی مرتب ہوگی‘‘ کیونکہ یارلوگوں نے خزانے میں کوئی پیسہ چھوڑا ہی نہیں تو حکومت بجٹ کیا بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’روایتی نہیں بلکہ ایشوز پر بات کریں گے ‘‘ اگرچہ سارے ایشوز ہم نے نہایت خوبصورتی سے پہلے ہی حل کررکھے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ سیکرٹ فنڈ کا استعمال ختم ہونا چاہیے …سعد رفیق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’سیکرٹ فنڈ کا استعمال ختم ہونا چاہیے ‘‘ لیکن محض میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے، ویسے بھی ریلوے میں کوئی سیکرٹ فنڈ ہوتا ہی نہیں، اور، اگر ہوتا ہے تو میں اس کا استعمال ضرور روک دوں گا، اول تو ریلوے میں کسی قسم کے فنڈ کا بھی کوئی وجود پایا نہیں جاتا، سیکرٹ فنڈ کہاں سے آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مزدوروں کے ساتھ مل کر ریلوے کے حالات کو بہتر کروں گا‘‘ اور جہاں بھی انجن کی خرابی کی وجہ سے ضرورت پڑی تو مزدوروں کے ساتھ مل کر گاڑی کو دھکا بھی لگائوں گا کیونکہ اب وقت ایسا ہے کہ سارے معاملات مل جل کر ہی حل کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے بھارتی وزیر ریلوے لالو پرشاد کے تجربات سے استفادہ کرنے کے لیے سارا ماڈل منگوالیا ہے ‘‘ جس سے پتہ چل سکے گا کہ انجنوں کے بغیر گاڑیاں کس طرح چلائی جاسکتی ہیں کیونکہ انجن خریدنے کے لیے تو ریلوے کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس سال ریلوے میں مزید خسارہ ہوگا‘‘ کیونکہ اس کم بخت کو ہرسال بڑھنے کی عادت ہی پڑی ہوئی ہے، اس لیے سوائے صبر کے کیا کیا جاسکتا ہے کیونکہ اللہ ویسے بھی صبر کرنے والوں ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی شو میں گفتگو کررہے تھے۔ الحذر ! الحذر ! ایک مشکوک سی اخباری اطلاع کے مطابق خیبر پختونخوا کی گورنری جمعیت العلمائے اسلام کو دی جاسکتی ہے جبکہ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ مولانا صاحب کی دی گئی ترجیحات پر حکومت کس حدتک عمل کرنے کو تیار ہوئی ہے۔ اور، اگر نصیب دشمنان مولانا اس صوبے کی گورنری پر بھی ہاتھ صاف کرجانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر صوبے کی حکومت چل چکی، کیونکہ مولانا صاحب اسے برداشت تک کرنے کو تیار نہیں اور اسے یہودیت کی نمائندہ اور نہ معلوم کیا کیا کہتے پھرتے ہیں۔ پھر یہ ’’سانحہ‘‘ وزیراعظم کی اس سوچی سمجھی پالیسی کے بھی خلاف ہوگا کہ سب کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا اور سب کو ساتھ لے کر چلا جائے گا۔ اصولی طورپر بھی وزیر اعظم کو اپنی جماعت میں سے ہی کسی کو گورنر بنانا چاہیے جبکہ سردار مہتاب عباسی کا نام اس سلسلے میں کچھ دنوں سے گردش بھی کررہا ہے کیونکہ مولانا صاحب اپنی ضد اور افتاد طبع کے باعث خود چین سے بیٹھیں گے نہ اپنی انتہائی ناپسندیدہ حکومت کو بیٹھنے دیں گے اور حکومت کے لیے مسائل بھی پیدا کرتے رہیں گے اور اس کے لیے خود بھی مسئلہ بنے رہیں گے، اس لیے امید کرنی چاہیے کہ میاں صاحب ایسی فاش غلطی نہیں کریں گے جو ان کے اپنے اعلانیہ نظریات کی نفی کرتی ہو۔ آج کا مطلع جو اس طرح بھی نہ کرتا تو اور کیا کرتا وہ میرے ساتھ بھلا کس لیے وفا کرتا