عوام کو کڑوی گولی نگلنا ہوگی… اسحٰق ڈار وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ’’عوام کو کڑوی گولی نگلنا ہوگی‘‘ کیونکہ میٹھی گولیاں ہم انتخابات سے پہلے بہت دے چکے ہیں جو انہوں نے مزے لے لے کر چوسیں، اس لیے اب کڑوی گولی بھی نگل لیں، البتہ اسے چوس کر منہ کا ذائقہ خراب کرنے کی ضرورت نہیں، اسے پانی کے ساتھ ایسے ہی نگل لیں اور اگر لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پانی بھی نہ آرہا ہو تو دودھ یا جوس کے ساتھ نگل لیں جو پہلے سے ذرا مہنگے ضرور ہوگئے ہیں چنانچہ انہیںبھی کڑوی گولی ہی سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجٹ کے بارے میں غلط باتیں نہ پھیلائی جائیں‘‘ اگرچہ اس کے بارے میں صحیح باتیں پھیلانا زیادہ تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’امراء کو ٹیکس دینا ہوگا‘‘ جن کی خاطر ہم نے ہائبرڈ گاڑیوں پر درآمدی ٹیکس ختم کردیا ہے اور اسی لیے ہم انہیں ٹیکس نیٹ میں بھی نہیں لائے کہ وہ اپنی وضعداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خود ہی ٹیکس ادا کرنا شروع کردیں گے کیونکہ امراء کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہماری وضعداری کے بھی خلاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجٹ سے اشیائے ضرور یہ مہنگی نہیں ہوں گی ‘‘ جبکہ اشیائے صرف تو ویسے ہی اشیائے ضروریہ میں شمار نہیں ہوتیں کیونکہ یہ امیروں کے چونچلے ہیں۔ غریب تو ان کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کررہے تھے۔ بجٹ سے سرکاری ملازمین مایوس ہوئے ہیں …فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’بجٹ سے سرکاری ملازمین مایوس ہوئے ہیں‘‘ جبکہ اس سے پہلے میری مایوسی ہی کیا کم تھی جس کی وزیراعظم سے ہرگز امید نہیں تھی جنہوں نے خاکسار کی ترجیحات کو بیچ میں ہی لٹکا رکھا ہے چنانچہ اسی سلسلے میں عمرے پر جارہا ہوں کہ وہاں جاکر دعا مانگوں گا۔ اللہ تعالیٰ وزیراعظم کو نیک ہدایت دے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت ریلیف دے‘‘ جبکہ ریلیف کے طلبگار ہم بھی ہیں جو صوبہ پختونخوا کی گورنری کی شکل میں ہی دیا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ’’وفاقی بجٹ عوام کی توقعات کے برعکس ثابت ہوا ہے‘‘ اور، اگرچہ ہم عوام ہرگز نہیں ہیں لیکن یہ ہماری توقعات کے بھی مطابق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اشیائے ضروریہ کوسستا کرنے کی بجائے مہنگا کردیا گیا ہے ‘‘ اور یہی الٹی گنگا ہمارے معاملے بھی بہائی گئی ہے جس میں ہاتھ دھونے کے لیے فی الحال ہماری کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ’’ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھنی چاہئیں ‘‘کیونکہ ہمیں بھی ان سے کام پڑتا رہتا ہے، اس لیے سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ ہماری گاڑی بھی چلتی رہنی چاہیے اور اگر حکومت کا انداز تغافل یہی رہا تو ہم اپوزیشن میں بھی بیٹھ سکتے ہیں جہاں ہماری گاڑی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ چل سکتی ہے کیونکہ اللہ کے فضل سے ہمیں گاڑی چلانی آتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں وفاقی بجٹ پر اظہار خیال کررہے تھے۔ ن لیگ کو محاذ آرائی کی بجائے تحمل کی سیاست کرنا ہوگی… اعتزاز احسن پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ’’ن لیگ کو محاذ آرائی کی بجائے تحمل کی سیاست کرنا ہوگی‘‘ کیونکہ پرانے مقدمات کو نئے سرے سے کھولنا صریحاً محاذ آرائی ہے اور صدر کے فلسفۂ مفاہمت کے بالکل برعکس ہے جن کی ویسے بھی میعاد ختم ہونے والی ہے اور اسثنیٰ بھی قصہ ٔ ماضی ہوکر رہ جائے گا اور اگرچہ اصل فکرمندی سوئس عدالت کے مقدمات کھلنے اور پیسوں کی واپسی کا معاملہ ہے لیکن مقامی مقدمات مرے کو مارے شاہ مدار کے ہی مترادف ہوں گے لہٰذا ن لیگ والے ہاتھ ذرا ہولا رکھیں کیونکہ اگلی بار ہم بھی حکومت میں آسکتے ہیں جبکہ ن لیگ کے قائدین کے خلاف بھی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلزپارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آئے گی ‘‘ کیونکہ کوئی پارٹی کارکردگی کی بنا پر نہیں بلکہ موجودہ پارٹی کی بدحکومتی کی وجہ سے اقتدار میں آتی ہے، ن لیگ سے ہمیں جس کی قوی امید ہے اور وہ ہمیں اس سلسلے میں ہرگزمایوس نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا ’’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت آئینی مدت پوری کرے ‘‘ جس کے لیے ہم ن لیگ کی طرح فرینڈلی اپوزیشن کا کردار اداکرنے اور ان کی حکومت کی میعاد پوری کرانے کو تیار ہیں جس طرح انہوں نے ہماری مدت پوری کرائی تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ ماہنامہ ’’نردبان ‘‘ یہ رسالہ ہمارے دوست ڈاکٹر وزیر آغا کی یاد میں سرگودھا سے شائع ہوتا ہے اور اسے چیدہ اور چنیدہ ادیبوں کے تعاون نے ایک معیاری ادبی رسالے کی حیثیت دے رکھی ہے۔ وقفہ ٔ اشاعت کے حساب سے اسے ماہنامہ کی بجائے سہ ماہی کہنا مناسب ہوگا۔ اسے صفدر رضا صفی‘ قمر ریاض کی معاونت سے شائع کرتے ہیں۔ حال ہی میں اس کا تازہ شمارہ موصول ہوا ہے جو جنوری تا اپریل 2013ء کو محیط ہے۔ اس میں ڈاکٹر وزیر آغا کے بناء کردہ نظموں کے تجزیے کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا ہے جہاں ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے یوسف خالد اور ایڈیٹر نے رفیق سندھیلوی کی ایک ایک نظم کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ خصوصی گوشے میں بزرگ ادیب ڈاکٹر انور سدیدجلوہ گر ہیں جن کے فن اور شخصیت پہ ڈاکٹر مسرور احمد زئی، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش اور کاظم جعفری نے خیال آرائی کی ہے۔ مضامین میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر عابد سیال کے رشحات قلم ہیں جبکہ کہانیوں میں عذرا اصغر ، احمد صغیر صدیقی، خالد فتح محمد، میاں سہیل حیدر اور قمر ریاض کی تحریریں اور مہراللہ یار سپرا کا خصوصی مضمون شامل ہے۔ عراقی نژاد عربی شاعر ادیب کمال الدین کا تعارف اور ان کی متعدد نظموں کا ترجمہ اقتدار جاوید نے پیش کیا ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ حصۂ نظم میں ستیہ پال آنند، احمد صغیر صدیقی، ایوب خاور، ابرار احمد، اقتدار جاوید، ارشد نعیم ، رفعت ناہید، شاہین عباس اور دیگران ہیں جبکہ حصۂ غزل کی حالت ذرا پتلی ہے اگرچہ اس میں نام تو بہت سے ہیں تاہم ایوب خاور کی نظم ’’جنازے ڈھورہا ہوں میں ‘‘ آپ کی ضیافت طبع کے لیے پیش ہے : جنازے ڈھورہا ہوں میں …تری ان سبز آنکھوں کے طلسم آثار لمسوں کے …جنازے ڈھو رہا ہوں میں… تری دہلیز پر میری انا کی کرچیاں بکھری پڑی ہیں …اور میں ان پر ننگے پائوں چل رہا ہوں جان من … میرے شکستہ بازوئوں کی قبر میں میرے ہی اپنے …خواب کی میت پڑی ہے … جس کے ہونٹوں اور … آنکھوں پر تری خوشبو کا سبزہ ہے …سواس سبزے کو تیرے ہی منافق ساونوں سے دھورہا ہوں میں …جنازے ڈھورہا ہوں میں … ترے اسرار میں ڈوبی دوپہروں …اور شاموں کے جنازے ڈھو رہا ہوں میں …ترے قدموں تلے روندے ہوئے اپنے دل بے مایہ کی مٹی میں …اپنے ہی دکھوں کو بورہا ہوں میں …جنازے ڈھورہا ہوں میں … ہراک سلوٹ، شکستہ خواب کی ہرایک سلوٹ میں … ترے اقرار سے بھیگی ہوئی آواز، اس آواز سے… لہکی ہوئی میری ہراک دھڑکن ، ہراک دھڑکن میں … تو ہے، تیرے سچ اور جھوٹ ہیں اور مصلحت ہے … مصلحت کی خاص عادت ہے …سو تیری مصلحت کی سبز کائی سے لپٹ کر … رورہا ہوں میں … جنازے ڈھورہا ہوں میں … مگر تجھ کو بھلا اس سے غرض کیا جان جاں! تیرے لیے دنیا میں سب کچھ ہے …کئی دل تیری پلکوں سے بندھے ہیں … کئی دل ہیں کہ جن میں تیری پائل کی چھنک چھن چھن…چھنکتی ہے …کئی پودوں میں تیرے لمس کی خواہش سلگتی ہے… کئی ہونٹوں سے تیرے نام کا جادو لپٹتا ہے…کئی سینوں میں تیری چوڑیاں ، کنگن چھنکتے ہیں … یہ تیرے حسن کی… حسن سیاست کی مہارت ہے … مجھے تجھ سے بس اتنی ہی شکایت ہے …شکایت کیا، قیامت ہے …قیامت ہے کہ رکتی ہے نہ چلتی ہے …قیامت سے لپٹ کر جانے کب سے رورہا ہوں میں… جنازے ڈھو رہا ہوں میں… تیری ان سبز آنکھوں کے طلسم آثار لمسوں کے … جنازے ڈھو رہا ہوں میں۔ آج کا مقطع مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے، ظفرؔ کتنا چالاک تھا، مارا مجھے تنہا کرکے