پیارے جِنّو! بیشک آپ تو ہمیں نظر نہیں آتے لیکن ہمیں تو آپ لوگ دیکھتے ہی ہوں گے اور ہمارا ہفت روزہ بھی آپ کی نظر سے گزرتا رہتا ہوگا۔ چنانچہ ہم نے مناسب سمجھا کہ اس پرچے میں آپ کی نمائندگی کی سعادت بھی ہمیں حاصل کرنی چاہیے۔ مبادا آپ کی نظرکرم ہم پر پڑ جائے اور آپ کو نکلوانے کے لیے ہمیں کسی عامل بابا کی خدمات حاصل کرنی پڑیں جو اسی بہانے مار مار کر ہماری ہڈی پسلی ایک کردے۔ چلیے اس کی بھی کوئی بات نہیں، لیکن سنا ہے کہ آپ طوعاًو کرہاً نکل تو جاتے ہیں مگر نکلتے ہوئے کوئی نشان بھی دے جاتے ہیں۔ مثلاً دروازہ وغیرہ یا کوئی دیوار توڑ دینا آپ کے معمولات میں شامل ہے جبکہ مہنگائی کے اس زمانے میں دروازے یا دیوار کی مرمت کرانا بہت تکلیف دہ امر ہے۔ علاوہ ازیں آپ چونکہ ہر مشکل آسان کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ آپ کی خوشنودیٔ طبع حاصل ہوجائے تو کوئی مسئلہ یا مطالبہ ہم بھی پیش کرنے کے قابل ہوجائیں۔ آپ کو ہماری یہ کاوش کیسی لگی؟ امید ہے کہ کسی نہ کسی بے ضرر طریقے سے آپ ہمیں اپنی قیمتی رائے سے ضرور نوازیں گے۔ دعائوں میں یاد ر کھنا نہ بھولیے گا ۔ سبق آموز واقعات و مشاہدات ایک ا مریکی جوڑا آئوٹنگ کے بعد آ کر گھر میں داخل ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ منی بار کے سامنے کھڑا کوئی اجنبی شراب پینے میں مصروف ہے جس پر امریکی بولا۔ اوئے لعنتی! تم کون ہو اور گھر کیسے داخل ہوئے ہو کیونکہ ہم تو اسے مقفل کرکے گئے تھے۔ اس شخص نے جواب دیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، میں ایک جنّ ہوں اور کسی گھر کا کھلا یا مقفل ہونا میرے نزدیک ایک ہی بات ہے۔ آپ بتائیں کہ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں کیونکہ کوئی بھی خواہش پوری کرنا میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے جس پر مطمئن اور خوش ہو کر امریکی نے اسے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ اس پر اس کی خوبصورت بیوی بولی، کیا آپ ہیروں والے کچھ جڑائو زیورات دلا سکتے ہیں؟ جنّ بولا، بھلا یہ بھی کوئی کام ہے؟ حوصلہ پا کر عورت پھر بولی، کیلیفورنیا میں کوئی خوبصورت گھر دلا سکتے ہو؟ جنّ نے جواب دیا، میرے لیے اس سے آسان کام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ا تنے میں امریکی بولا مجھے دس ہزار ابھی دلوا سکتے ہو؟ جنّ نے کہا ، یقیناً ۔ تو امریکی نے کہا، اس میں اب دیر کیا ہے۔ جس پر جنّ نے کہا پہلے یہ بتائو کہ تم کتنا پڑھے ہوئے ہو؟ امریکی بولا میں نے ایم اے کر رکھا ہے جس پر جنّ بولا، دراصل بات یہ ہے کہ میں ادھر سے گزرر ہاتھا، بے دھیانی میں تمہارے دروازے کے ہینڈل کو گھمایا تو وہ کھل گیا جو تم لاک کرنا بھول گئے تھے اور دوسری بات یہ ہے کہ اتنا پڑھے لکھے ہونے کے باوجود تم جنوّں بھوتوں جیسی فرضی چیزوں پر یقین رکھتے ہو؟ ٭ ایک شخص نہر کے کنارے جارہا تھا کہ اسے پانی میںایک تربوز آتا ہو ا نظر آیا۔ اسے بھوک بھی لگی ہوئی تھی، چنانچہ اس نے کوشش کرکے اسے نکال لیا اور کھانے کے لیے توڑا ہی تھا کہ اس میں سے پہلے دھواں نکلا اور پھر ایک جنّ نکل کر کورنش بجا لاتے ہوئے بولا، میرے آقا میرے لیے کیا حکم ہے؟ جس پر اس شخص نے کہا، یار کوئی اچھا سا پلاٹ ہی کہیں دلا دو۔ جس پر جنّ بولا، میرے آقا اگر میں پلاٹ حاصل کرسکتا تو کیا خود تربوز میں رہتا؟ ٭ محترمہ تہمینہ دولتانہ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس بھی میاں شہباز شریف کی شکل میں ایک چھوٹا سا جنّ موجود ہے جو جنّ کی طرح کام کرتا ہے۔ محترمہ کو شاید معلوم نہیں کہ جنوّں کو تو کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کیونکہ مختلف بھوت، بھتنیاں، چھلیڈے، چھلاوے، بڈاوے، پچھل پائیاں، چڑیلیں اور دیگر ہوائی چیزیں ہر وقت ان کی خدمت پر مامور ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ تشبیہ کچھ زیادہ قرین قیاس نہیں ہے۔ ہدایات عامہ ٭جنّ چونکہ بوتل میں بند رہتا ہے اس لیے اسے بوتل سے باہر نکالنے کی کبھی کوشش نہ کریں کیونکہ ایک بار اگر وہ بوتل سے نکل آیا تو اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ٹیوب میں سے ٹوتھ پیسٹ نکال کر اسے دوبارہ ٹیوب میں ڈالنا۔ یا کمان سے نکلے ہوئے تیر کو کمان میں واپس لانا۔ ٭چونکہ پریاں بھی جنوّں کی مطیع ہوتی ہیں اس لیے اپنی کھٹارا بیویوں کی موجودگی میں آپ ان پر بجا طور پر رشک کرسکتے ہیں۔ بیشک آپ انہیں پری پیکر ہی کہنے پر مجبور کیوں نہ ہوں (بیویوں کو، پریوں کو نہیں) ٭جنوّں اور دیووں میں کیا فرق ہے؟ آپ اس چکر میں پڑنے کی کبھی کوشش نہ کریں کیونکہ دونوں سے بچ کر رہنا ضروری ہے۔ مہنگائی کا جنّ اور جنّ جپھّا ایک ہی چیز ہیں۔ پسندیدہ اشعار ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اب جہاں جناّت، ظفرؔ انہیں اطراف میں اپنا بھی پری خانہ تھا ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے ایڈیٹر کی ڈاک مکرمی! ہم نے اپنے علم کے زور پر پیشگی معلوم کرلیا تھا کہ آپ اپنے موقر جریدے ہفتہ روزہ ’’گورو گھنٹال‘‘ میں ہمارے لیے صفحہ چھاپنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس پر آپ یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ تاہم ابتدائی طور پر اپنے ایک مسئلے کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ لوگ ہمیں نکلوانے کے لیے منت سماجت کی بجائے عاملوں اور بابوں کو لے آتے ہیں جو محض اپنا رعب ڈالنے کے لیے مریض کو ،جو عموماً خواتین ہوتی ہیں ،مار مار کر ہلکان کر دیتے ہیں بلکہ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ شرفا کسی خوش شکل مریض خاتون کو ویسے ہی بھگا لے جاتے ہیں اور جنّ نکلواتے نکلواتے لوگ عورت ہی ہاتھ سے نکلوا بیٹھتے ہیں چنانچہ آپ ایک زوردار اداریئے کے ذریعے انہیں سمجھائیں کہ اول تو مریض خواتین جنّ کا محض بہانہ کررہی ہوتی ہیں اوران کا درپردہ مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ دوسرے ہم اپنا وقت پورا کرکے خود ہی نکل جایا کرتے ہیں، بابوں وغیرہ کو ہم گھاس نہیں ڈالتے کیونکہ یہ زیادہ تر خود فراڈ ہوتے ہیں اور ہمارے معمولات میں دخل در معقولات کرکے اپنا بھی وقت ضائع کرتے ہیں اور ہمارا بھی ۔پیشگی شکریہ! ایک بھلا مانس جنّ آج کا مقطع حسن ہے ایک حصار اپنے لیے خود ہی ظفر میں تو اس شہر میں داخل بھی نہیں ہوسکتا