امریکہ نئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہ کرے …نواز شریف وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’امریکہ نئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہ کرے‘‘ کیونکہ وہ پہلے ہی مشکلات میں کافی خودکفیل ہے بلکہ اگر امریکہ چاہے تو ہم اسے مشکلات ایکسپورٹ بھی کرسکتے ہیں، تاہم، ان کا اصل اندازہ انتخابات کے بعد ہی ہوا ہے ورنہ ہم وعدے کرتے وقت ذرا رعایت سے کام لیتے اور اتنی فیاضی کا مظاہرہ نہ کرتے ، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے نقصان دہ ہیں ‘‘ کیونکہ ان سے مکان وغیرہ ڈھیہ جاتے ہیں جنہیں مرمت یا دوبارہ تعمیر کرنے پر کافی خرچ آتا ہے، بشرطیکہ خرچ کرنے والا کوئی زندہ بچ رہا ہو، انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کیا جائے ‘‘ حالانکہ پاکستان کس قدر خودمختار واقع ہوا ہے، امریکہ کو اچھی طرح سے معلوم ہے، تاہم جتنا یہ خودمختار ہے، اس کا اتنا تو احترام کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاک امریکہ سٹرٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے‘‘ جس سے ڈرون حملوں کی بھی کسی نہ کسی طرح گنجائش نکالی جاسکتی ہے، مثلاً امریکہ کی بجائے یہ نیک کام ہم خود کریں اور جس کے لیے ضروری ہے کہ ڈرون کے دوچاردانے ہمارے بھی حوالے کیے جائیں۔ آپ اگلے روز امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ٹیلیفون پر گفتگو کررہے تھے۔ ن لیگ کو عوام نے منتخب کیا اب مہنگائی بھگتیں …خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ’’ن لیگ کو عوام نے منتخب کیا۔ اب مہنگائی بھگتیں‘‘ اگرچہ یہ مہنگائی ہمارے ہی اعمال صالحہ کا نتیجہ ہے لیکن ہم اس کا نتیجہ انتخابات میں بھگت چکے ہیں، البتہ آئندہ کئی نسلیں بھی اس سے لطف اندوز ہوتی رہیں گی کہ ہم نے خوش حکومتی کی انتہا کردی تھی لیکن انتہا کسی بھی چیز کی اچھی نہیں ہوتی، اس لیے آئندہ خدانے موقعہ دیا جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، تو اس انتہا میں کمی کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجٹ میں غریب کے لیے کچھ نہیں‘‘ اگرچہ ہم نے غربت کے ساتھ ساتھ غریبوں کے خاتمے کی بھی سرتوڑ کوشش کی لیکن صرف حکومتی افراد ہی کی غربت ختم کی جاسکی جسے بارش کا پہلا قطرہ سمجھنا چاہیے لیکن پوری بارش سے پہلے ہی انتخابات کی آندھی سارے بادل اڑا کر لے گئی ورنہ اب تک جل تھل ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے کہا ’’عوام حکومت سے پوچھیں کہ انہیں کیا ریلیف دیا گیا‘‘ تاہم یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے عوام کے لیے باقی چھوڑا ہی کیا تھا جس میں سے نئی حکومت عوام کو بھی کچھ دیتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلزپارٹی مفاہمتی پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے‘‘ اسی لیے متحدہ کو بھی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس سے باہر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا …فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’خیبر پختونخوا کی حکومت نے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا‘‘ اگرچہ ہم نے اسے ناکام بنانے کے لیے بہت سے منصوبوں پر کام شروع کررکھا ہے لیکن ن لیگ اس میں باقاعدہ روڑے اٹکا رہی ہے اور ہمیں اس بات کی اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اس نے اتنے سارے روڑے کہاں سے لیے ہیں حالانکہ روڑے ہمارے ہاں زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ حکومت پہلے سے بنائے گئے منصوبوں پر کام کررہی ہے‘‘ حالانکہ ہمارے ہاں یہ صحت مندانہ روایت موجود ہے کہ ہرآنے والی حکومت پچھلی حکومت کے شروع کیے گئے منصوبے اللہ کا نام لے کر ختم کردیتی ہے اور نئے شروع کیے جاتے ہیں حتیٰ کہ بعد میں آنے والی حکومت ان کا بھی تیاپانچہ کرکے سرخروہوجاتی ہے لیکن حکومت روایات کے سراسر خلاف اپنی من مانیاں کرنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجٹ سرمایہ داروں کے لیے ہے‘‘ اگرچہ ہم بھی اب ماشاء اللہ کافی حد تک سرمایہ دار ہو چکے ہیں اور مزید ہونے کا مصمم ارادہ بھی ہے‘ لیکن ہمیں اس میں اپنے لیے بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجٹ عام آدمی یا غریب کے لیے نہیں‘‘ لیکن یہ کسی کے لیے بھی نہیں ہے کیونکہ نہ اس میں ہمارا فائدہ ہے نہ غریبوں کا۔ آپ اگلے روز اپنے ترجمان جان اچکزئی کے ذریعے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ پاکستانیت چھینی گئی تو ملک کے خاتمے کا اعلان ہوجائے گا …الطاف حسین متحدہ قومی محاذ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ’’مجھ سے پاکستانیت چھینی گئی تو ملک کے خاتمے کا اعلان ہوجائے گا‘‘ اگرچہ اس سے ملک تو ختم نہیں ہوگا لیکن آخر کہنے میں کیا حرج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سندھ حکومت میں شمولیت کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے ‘‘ اگرچہ میں ذاتی طورپر سمجھتا ہوں کہ متحدہ حکومت میں شمولیت کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی، لیکن اس سے پہلے ریفرنڈم ضروری ہے جس سے عوام کی مرضی کا صحیح اندازہ ہوسکے جیسا کہ ضیاء الحق اور مشرف کے ریفرنڈمو ں کی روشن مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔ آپ اگلے روز لندن سے ٹیلیفونک خطاب کررہے تھے۔ بند ٹرینیں چلانے کی بجائے مال گاڑیوں پر توجہ دیں گے… سعد رفیق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’بند ٹرینیں چلانے کی بجائے مال گاڑیوں پر توجہ دیں گے‘‘ اور یہ ریلوے کی سمت درست کرنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ جبکہ عوام مال گاڑیوں پر بھی سفر کر سکتے ہیں کیونکہ اگر میں سیلون کی بجائے اکانومی کلاس میں سفر کر سکتا ہوں تو عوام مال گاڑیوں میں کیوں نہیں کر سکتے۔ ان کی رفتار کی وجہ سے وہ اردگرد کے بازاروں سے بھی بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’تجاوزات ختم کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا جائے گا‘‘ لہٰذا جن لوگوں نے اس کے خلاف حکم امتناعی وغیرہ لینا ہے وہ جلدازجلد اس فرض سے سبکدوش ہوجائیں کیونکہ اس میں ماشاء اللہ ہمارے لوگ بھی شامل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ’’کرپشن کو جڑسے اکھاڑ پھینکیں گے‘‘ اس لیے اس کی جڑتلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اگرچہ یہ کم بخت جڑسے اکھاڑے جانے کے بعد بھی نئی جڑیں نکال لیتی ہے۔ اس لیے یہ ایک مسلسل اور مستقل کام ہے جس سے فارغ ہوتے ہی گاڑیوں کی طرف توجہ دینے کا کام شروع ہوجائے گا ۔ کیونکہ آخر ایک وقت میں ایک ہی کام ہوسکتا ہے اور جوکام ہوسکتا ہو، پوری دلجمعی سے کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ آج مطلع وہ نوک تیغ پہ رکھ لائے تھے، ظفرؔ ،دستار قبول کرکے ہی آخر بچا ہے سرمیرا