کراچی سے مجتبیٰ احمد صغیر صدیقی کا خط موصول ہوا ہے جس میں میرے ان کالموں پر شکریہ ادا کیا گیا ہے جو میں نے موصوف کی شاعری کے بارے میں تحریر کیے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان ادباء کی فہرست پیش کی ہے جو ان کی شاعری پر لکھ چکے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ آج کل غزلیں کم ہی کہہ رہا ہوں کیونکہ محسوس کرتا ہوں کہ کہیں اپنے آپ کو Repeat نہ کرنے لگوں۔ دو باتیں ان کے علاوہ بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ’’زرنگار‘‘ کے کسی شمارے میں مدیر ’’زرنگار‘‘ کے کسی شعر کی تحسین کرتے ہوئے آپ نے لکھا تھا کہ ہاتھ میں پھول کھلنے کا مضمون اس سے پہلے آپ کو کہیں نظر نہیں آیا۔ میں نے ایک خط میں انہیں لکھا تھا کہ اس سے پہلے یہ بات لکھی جا چکی ہے، مگر مدیر نے میرا خط چھاپتے ہوئے میری ان تمام سطور کو کاٹ دیا تھا تاکہ یہ بات آپ تک نہ پہنچ سکے اور نہ قارئین کو خبر ہوسکے۔ شعر ہے ؎ دشتِ غربت میں ترا نامۂ شوق ہاتھ میں پھول کھلا ہو جیسے یہ شعر تاج بھوپالی کا ہے اور آج سے کوئی پچاس پچپن سال پہلے کہا گیا تھا۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ آج کل میں اس عذاب کو جھیل رہا ہوں جو آپ کے دوست احفاظ الرحمن نے میرے اوپر مقدموں کی شکل میں نازل کیا ہوا ہے۔ جہاں تک مذکورہ شعر کا تعلق ہے تو ضیا حسین ضیا کا شعر اس طرح سے تھا ؎ جو تجھے پیش کرنا چاہتا تھا پھول وہ ہاتھ پر کھلا ہی نہیں دونوں شعروں میں فرق یہ ہے کہ ایک تو تاج بھوپالی نے پھول کے ہاتھ میں کھلنے کا ذکر کیا ہے جبکہ ضیا نے پھول کے ہاتھ پر کھلنے کا۔ تاج بھوپالی نے خط کو ہاتھ میں کھلنے کو ایک تشبیہ کے طور پر باندھا ہے اور ماسوائے تشبیہ کے اس میں کوئی تخلیقیت نہیں ہے جبکہ ضیا کے شعر میں یہ مضمون تشبیہ کے بغیر ہے جو اپنے معنی الگ سے دے رہا ہے اور تاج بھوپالی سے کہیں بہتر شعر ہے۔ مجھے جناب احفاظ الرحمن کا دوست کہہ کو موصوف نے شاید اس عذاب رسانی میں مجھے بھی حصہ دار بنانے کی کوشش کی ہے جو بقول اُن کے مؤخر الذکر ان پر نازل کررہے ہیں۔ احفاظ الرحمن کی تحریریں میری نظر سے گزرتی رہتی ہیں لیکن ان کا دوست ہونے کا شرف مجھے حاصل نہیںہے، شاید آئندہ کبھی یہ دوستی ہو بھی جائے۔ البتہ ان مقدمات کی نوعیت سے میں بالکل بے خبر ہوں جبکہ احمد صغیر صدیقی کی شکستہ خطی سے مجھے اتنا ہی اندازہ ہوا ہے۔ میں نے اپنے کالم میں جن صاحب کی طرف اشارہ کیا تھا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ احمد صغیر صدیقی کے کلام میں تو ظفر اقبال ہی نظر آتا ہے، خود احمد صغیر کہاں ہے؟ تو میں نے اس تاثیر کو کسی حد تک زائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اب ان کا ایک باقاعدہ مضمون اس موضوع پر موصول ہوا ہے اور مضمون نگار شاعر شوکت عابد‘ جو صدیقی ہی کے ہم شہر بھی ہیں‘ نے فرمائش کی ہے کہ یہ مضمون ’’دنیا‘‘ میں چھپوا دوں کیونکہ یہ میرے کالم ہی کے حوالے سے لکھا گیا ہے لیکن میں نے اسے مناسب نہیں سمجھا۔ تاہم، احمد صغیر صدیقی کو بعض لوگ جس ظفر اقبالیت کا طعنہ دیتے ہیں، انہیں احمد صغیر صدیقی اس کا بہانہ اور جواز خود مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں ان کی دو غزلیں سہ ماہی ’’اجمال‘‘ کراچی‘ جس کے وہ شریک مدیر بھی رہ چکے ہیں‘ اور ماہنامہ ’’نردبان‘‘ لاہور میں شائع ہوئی ہیں وہ میری زمینوں میں ہیں۔ مثلاً پہلی غزل کے مطلع کا پہلا مصرعہ ہے۔ ع گمان ہوتا ہے ہم صدا سے مٹے ہوئے ہیں یہ میری اس زمین میں سے ہے جس میں‘ میں نے متعدد غزلیں قافیہ بدل بدل کر کہہ رکھی ہیں اور میرے مجموعہ کلام میں بھی شامل ہیں۔ مثلاً لکھے ہوئے ہیں، ہٹے ہوئے ہیں، جڑے ہوئے ہیں وغیرہ۔ دوسری غزل کے مطلع کا پہلا مصرعہ ہے۔ ع خود اپنی ذات سے اک مقتدی نکالتا ہوں اس زمین میں میری مطبوعہ غزل ہے جس کا مصرعہ ثانی ہے۔ ع میں اپنے آپ سے شب بھر تجھے نکالتا ہوں کسی دوسرے کی زمین میں غزل کہنا کوئی عیب کی بات نہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ حاشیے میں اس کا ذکر بھی کریں، بیشک غزل آپ نے قافیہ تبدیل کرکے ہی کہی ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ حق تو یہ ہے کہ اگر آپ کسی کی زمین میں غزل کہیں تو آپ کی غزل اس سے اس قدر بہتر ہو کہ آپ یہ زمین اس سے چھین لیں۔ احمد صغیر صدیقی کو اس سلسلے میں خصوصی احتیاط اس لیے بھی کرنی چاہیے کہ کچھ لوگوں کو تو ان کی شاعری پر پہلے ہی ظفر اقبال چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے، چہ جائیکہ آپ ظفر اقبال کی زمینوں میں غزلیں کہہ کہہ کر اس شبہے کو یقین میں بدلنے کی کوشش کریں۔ لطف یہ ہے کہ ان کے مجموعے ’’لمحوں کی گنتی‘‘ میں بھی میری زمین میں غزلیں موجود ہیں لیکن ان کے حاشیے میں کہیں یہ ذکر موجود نہیں جبکہ جون ایلیا کی زمین میں کہی گئی ایک غزل کے نیچے یہ اعلان موجود ہے۔ بہرحال‘ میں نے احمد صغیر صدیقی کی شاعری کے بارے میں جو تعریفی کالم لکھے ہیں، میں اس پر قائم ہوں۔ بے شک وہ رسائل کے ایڈیٹروں کے نام خطوط میں میرے خلاف لکھتے رہے ہیں، بلکہ ملتان کے ماہنامہ ’’انگارے‘‘ میں انہوں نے پورا مضمون شائع کرایا جس میں مثالیں دے دے کر میری تجرباتی شاعری کا مذاق اڑایا اور میری تضحیک کا شوق بھی پورا کیا‘ لیکن میں نے اس کا برا نہیں مانا کیونکہ میری کمٹ منٹ شاعری کے ساتھ ہے، شاعر کے ساتھ نہیں۔ اگر وہ عمدہ شعر کہتا ہے تو وہ میرے خون کا پیاسا ہی کیوں نہ ہو‘ اس کی تعریف اور اعتراف کرنا میرے نزدیک اخلاقی اور ادبی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں مذکورہ مخالفانہ تحریروں کا برا اس لیے بھی نہیں مانتا کہ مجھے احمد صغیر صدیقی کی مخالفانہ تحریروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ میں اگر اس کی تعریف کروں تو اسے فرق پڑتا ہے کیونکہ اسے اس کی ضرورت بھی ہے جبکہ میں اس بات کا شکوہ پہلے کر چکا ہوں کہ اس کی شاعری پر تفصیلی کام ہونا چاہیے تھا۔ محبیّ ا قتدار جاوید نے بتایا ہے کہ احمد صغیر صدیقی نے انہیں بتایا ہے کہ وہ میرے کالموں کو مضمون کی شکل دے کر اپنی کسی کتاب میں شامل کریں گے یا کہیں شائع کرائیں گے۔ یہ ان کی مرضی ہے وگرنہ میں اس کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ یہ محض کالم آرائی ہے اور میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اسے باقاعدہ ایک مضمون کی حیثیت دے دی جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے پچھلے دنوں اپنے کرم فرما شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے لکھے گئے کالموں کو میں مضمون کی شکل میں نہیں چھپوائوں گا۔ اگر کوئی میرے رنگ یا لہجے میں لکھتا ہے تو مجھے اس پر چیں بہ جبیں ہونے کے بجائے خوش ہونا چاہیے ا ور میں خوش ہوتا بھی ہوں کہ یہ میرے ہی کام کو بڑھاوا دیا جارہا ہے؛ تاہم میں اس بات کی وضاحت کرچکا ہوں کہ احمد صغیر صدیقی کے ہاں اس کے علاوہ بھی کچھ ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے! آج کا مقطع ہے توکّل بھی کوئی چیز محبت میں، ظفرؔ خرچ کر ڈالیے وہ بھی جو بچایا ہوا ہے