پیارے کنجوسو! حق بات تو یہ ہے کہ آپ کا یہ صفحہ شروع کرنے میں ہم خود خاصی کنجوسی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں جس پر ہم پوری فراخدلی سے شرمندہ ہیں۔ دراصل تو یہ آپ کی کفایت شعاری ہے جسے بعض شرپسند عناصر نے محض اپنے مفادات کے تحت کنجوسی کا نام دے رکھا ہے اور جس نام کو وہ نہایت فیاضی سے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فضول خرچی اور اسراف کے اس زمانے میں آپ کا دم غنیمت ہے ورنہ اب تک اس ملک کی ساری دولت اور وسائل ختم ہوچکے ہوتے۔ چنانچہ ہماری رائے میں ملک عزیز کے اندر کنجوس حضرات کی ایک فہرست مرتب ہونی چاہیے جس کے ذریعے آپ حضرات کی قومی خدمات کا وقتاً فوقتاً اعتراف کیا جاتا رہے اور اس سلسلے میں قومی ایوارڈز کا سلسلہ بھی شروع کیا جاسکے۔ ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ کفایت شعار حضرات کا ایک سالانہ مقابلہ منعقد ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ اس قومی اہمیت کے حامل طرزِ عمل کو ہر ممکن فروغ دیا جا سکے اور ملک کے سب سے بڑے کنجوس کو کسی خصوصی اعزاز سے نوازا جاسکے۔ امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئے گی اور آپ اپنی تعریفی آرا سے ہمیں نوازنے کے لیے اپنی روایتی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کریں گے‘ اگرچہ آپ اپنی اس عادت سے بیحد مجبور ہوں گے۔ سبق آموز واقعات ٭…ایک دفعہ کچھ لوگ ایک کنجوس سیٹھ کے پاس گئے اور کہا کہ ہم ایک نہایت نیک مقصد کے لیے کام کررہے ہیں اور آپ سے چندہ کے طلب گار ہیں۔ سیٹھ نے انہیں کہا کہ میرا باپ بوڑھا اور بیمار ہے، کیا اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اس کی خدمت کرنا نیک کام نہیں؟ سب نے کہا کہ یہ یقینا بڑا نیک کام ہے اور اس سے خدا بھی خوش ہوتا ہے۔ اس کے بعد سیٹھ بولا میری ایک بیوہ بہن ہے، کیا اس کے اخراجات اٹھانا، اس کے بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھانا، ان کو فیسیں، وردیاں اور کتابیں وغیرہ مہیا کرنا نیک کام نہیں ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ واقعی یہ ایک بہت نیک کام ہے۔ پھر سیٹھ نے کہا کہ میری ایک معذور بیٹی ہے جو چل پھر نہیں سکتی کیا اس کی ضروریات اور جملہ مسائل کا خیال رکھنا نیک کام نہیں؟ وفد کے ارکان نے یک زبان ہو کر کہا کہ اس سے بڑی نیکی اور کیا ہوسکتی ہے تو سیٹھ بولا کہ میں جو یہ سارے کام نہیں کرتا تو تمہیں چندہ کس خوشی میں دوں؟ ٭… ایک فلاحی منصوبے کے لیے عطیات اکٹھا کرنے کے لیے شہر میں ایک اجلاس منعقد تھا جس میں بڑے بڑے مقامی صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی، پہلی قطار میں تین کنجوس بھی تشریف فرما تھے۔ پہلے اس منصوبے کے بارے میں تعارف کرایا گیا اور پوری وضاحت کے ساتھ اس کی افادیت کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا گیا کہ اس کے ذریعے نوع انسانی کے ایک محروم طبقے کو اتنا فائدہ ہوسکتا ہے۔ آخر پر موجود مخیرّ حضرات سے اپیل کی گئی کہ انتظامیہ کمیٹی کے ایک متفقہ فیصلے میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ہال میں موجود ہر فرد اس کار خیر میں حصہ ڈالتے ہوئے چندے کے طور پر دو ہزار روپے ادا کرے۔ اسے سن کر پہلی قطار میں بیٹھے تین حضرات میں سے ایک بے ہوش ہو کر گر پڑا اور باقی دو اسے اٹھا کر باہر لے گئے! ٭… ایک صاحب کی اہلیہ بیمار تھیں جنہیں لے کر وہ ایک ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر نے اس کا تفصیلی معائنہ کیا اور مشورہ دیا کہ اس کی صحت یابی کے لیے بے حد ضروری ہے کہ آپ علاج معالجے میں وقت ضائع نہ کریں اور پہلی فرصت میں اسے مری یا کسی اور صحت افزا مقام پر کچھ عرصے کے لیے لے جائیں۔ جب دونوں کلینک سے باہر نکل رہے تھے تو بیوی نے کہا، اب ہم کہاں جائیں گے؟ ’’کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس‘‘ شوہر نے جواب دیا۔ پسندیدہ شعر خرچ کرتا ہوں کفایت سے تجھے کام آئے گا بچایا ہوا توُ ایڈیٹر کی ڈاک آپ کے موقر ہفت روزہ کے ذریعے اپنے طبقہ کے ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں تاکہ اس کا کوئی حل نکل سکے یا اس شکایت کا کوئی تدارک ہوسکے۔ یقیناً یہ آپ کے بھی علم میں ہوگا کہ ہمیں صرف کنجوس کہنے کی بجائے کنجوس مکھی چوس کہا جاتا ہے حالانکہ کنجوس بجائے خود اس قدر فصیح و بلیغ لفظ ہے کہ اس سے پورا پورا ابلاغ ہوجاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ مکھی چوس کا لاحقہ لگانے کی بھلا کیا ضرورت ہے جبکہ مکھی ہمارے معاشرے میں کافی ناپسندیدگی بلکہ نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور جس کا کوئی جواز نہیں۔ تاہم، اگر یہ بہت ضروری بھی ہو تو اس ضمن میں شہد کی مکھی سے کام لیا جاسکتا ہے، مثلاً ’’کنجوس، شہد کی مکھی چوس‘‘ کیونکہ اس مکھی کے اندر کچھ نہ کچھ شہد تو ہوتا ہی ہے جو چوسنے کے دوران حاصل ہوسکتا ہے جبکہ عام مکھی کو تو چوسنے سے ویسے بھی متلی وغیرہ کا اندیشہ ہوتا ہے۔ خاکسار نے اس کا تجربہ بھی کیا تھا اور بعد میں الٹیاں کر کرکے میرا برا حال بھی ہوگیا تھا۔ سو آپ سے درخواست ہے کہ اس موضوع پر کوئی زوردار اداریہ لکھ کر خصوصی تعاون فرمایا جائے تاکہ اس فضول لاحقے سے نجات کی کوئی صورت نکل سکے۔ آپ کا ہفت روزہ پڑھنے کے لیے ہم دس بارہ افراد مل کر خرید لیتے ہیں تاکہ فضول خرچی نہ ہونے پائے۔ آپ کا ایک قاری کفایت علی آج کا مقطع ساتھ کچھ لا ہی نہ سکتے تھے تو ایسے میں، ظفرؔ واپسی پر باغ سارا آئینے میں رہ گیا