بجلی چوروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے: شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’بجلی چوروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے‘‘ یعنی حفظِ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے بعض کو گرفتار کرلیا جائے، بعضوں کی بجلی کاٹ دی جائے بعضوں کو آئندہ احتیاط کرنے کی تنبیہ کی جائے اور بعضوں سے درخواست کی جائے کہ محکمہ ان کی کافی خدمت کر چکا ہے۔ اس لیے اس پر ترس کھاتے ہوئے بجلی چوروں سے احتراز کرنے کی کوشش یا کم از کم وعدہ ضرور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کوئلے سیبجلی پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کریں گے‘‘ اگرچہ یہ کام خاکسار کو اپنے پچھلے دور میں ہی کردینا چاہیے تھا لیکن اتفاق سے اس کا خیال ہی اب آیا ہے اور خیال کی یہ اپنی غلطی ہے کہ یہ پہلے کیوں نہیں آیا اور خلقت خوار و زبوں ہوتی رہی۔ تاہم اس سلسلے میں کوئلوں کی دلالی سے گریز کیا جائے کیونکہ اس سے خواہ مخواہ منہ کالا ہونے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا ’’بجلی بحران سے نمٹنے کے لیے تمام آپشنز کا سنجیدگی سے جائزہ لیں گے‘‘ کیونکہ اس میں مخول شخول کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ نوازشریف نے کہا آپ ایماندار شخص ہیں: نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے قائم مقام چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ’’ نوازشریف نے کہا ہے کہ آپ ایک ایماندار شخص ہیں‘‘ جس پر میں پہلے تو حیران اور پریشان ہوا، لیکن پھر خیال آیا کہ ہر شخص کے نزدیک ایمانداری وہ ہوتی ہے جو اس کے حق میں کی گئی ہو، اس حساب سے نواز شریف بھی ایماندار ہیں جنہوں نے مجھے پاکستان کے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کرکے کچھ لوگوں کو حیران اور اکثر کو پریشان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نوازشریف کا کہنا ہے کہ اگر وہ وزیراعظم نہ ہوتے تو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین ہونا پسند کرتا‘‘ حالانکہ میں نے نگران وزیراعلیٰ ہونے کے دوران ہی اپنے لیے یہ عہدہ پسند کرلیا تھا جو نگرانی کے دوران میری مخلصانہ خدمات کی بدولت مجھے دے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں طویل اننگز نہیں کھیلنا چاہتا‘‘ لیکن اگر کوئی بائولر مجھے آئوٹ ہی نہ کرسکا تو اننگز جاری ہی رکھنا پڑے گی کیونکہ آخر اخلاق بھی کوئی چیز ہے۔ آپ اگلے روز پریس کلب لاہور میں خطاب کررہے تھے۔ مشرف کے خلاف کارروائی ملکی مفاد میں نہیں: مشاہد حسین سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین اور ق لیگ کے مرکزی رہنما سید مشاہد حسین نے کہا ہے کہ ’’مشرف کے خلاف کارروائی ملکی مفاد میں نہیں‘‘ کیونکہ انہوں نے آئین وغیرہ کا تیاپانچہ ملکی مفاد میں ہی کیا تھا حتیٰ کہ ان کے جملہ کارہائے نمایاں و خفیہ ملکی مفاد ہی کو پیش نظر رکھ کر کیے گئے تھے کیونکہ ان کا کوئی فیصلہ ملکی مفاد کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا تھا لیکن ملکی مفاد کا اپنا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا جو ہر دم اپنے تقاضے بدلتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پتہ چلنا چاہیے کہ جن لوگوں نے ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا کیا ان کا بھی ٹرائل ہوگا‘‘ کیونکہ ان معززین میں خاکسار بھی شامل تھا۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہ سازش جنرل مشرف کے خلاف نہیں، بلکہ براہ راست میرے خلاف ہے اور یہ ساری سکیم میرا کمبل چوری کرنے کے لیے ہے۔ مشرف کا تو بہانہ ہے اور یہ انتقامی کارروائی سراسر ملکی مفاد کے خلاف ہے حالانکہ میں تو ایک طرف بیٹھا دہی کے ساتھ روٹی کھا رہا ہوں، میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک مقامی روزنامہ سے بات کررہے ہیں۔ پینڈورا باکس؟ احمدرضا خاں قصوری کے علاوہ شیخ رشید احمد نے بھی کہا ہے کہ مشرف کے ٹرائل سے پینڈورا باکس کھل جائے گا۔ شاید موصوف کو خوف ہے کہ یہ پینڈورا باکس کھل گیا تو اس میں سے دیگر اشیا کے ساتھ وہ بھی نکل آئیں گے، حالانکہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ 3دسمبر کے واقعہ کے واحد ذمہ دار پرویز مشرف ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جو اس دور کے بعض جرنیلوں اور دیگر فوجی افسروں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس اقدام میں وہ بھی شامل تھے اور آخر عدالت کس کس کا ٹرائل کرے گی تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے اور وہ اپنے شرکائے کار کے کسی مشورے کا پابند نہیں ہوتا اور اگر کوئی اس کے فیصلے سے اختلاف کرے تو اس کی سزا خود عسکری قوانین میں موجود ہے، اس لیے پرویز مشرف کو اس طرح کے جملہ فیصلوں کی اونر شپ قبول کرنی پڑے گی کیونکہ ان کی مرضی اور حکم کے بغیر تو کوئی چڑیا بھی پرَ نہیں مار سکتی تھی، اس لیے کسی پینڈورا باکس سے ڈرانے والے دوستوں کو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ ایسا ہونے والا ہی نہیں۔ خوش آمدید اکمل علیمی! ہمدمِ دیرینہ سید اکمل علیمی کے ’’دنیا‘‘ میں شامل ہونے کی بڑی خوشی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی ذہن میں ایک بہت پرانی فلم چل پڑی ہے، جو پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے دنوں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے اور جو ہمیشہ یاد رہنے والی ہیں۔ اقبال حسین جعفری پاکستان ٹائمز میں سب ایڈیٹر تھے جو گورنمنٹ کالج ہی سے میرے کلاس فیلو چلے آرہے تھے۔ ’’امروز‘‘ اور’’ لیل و نہار‘‘ میں میری نظمیں، غزلیں چھپا کرتی تھیں۔ فیض صاحب پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہوا کرتے تھے اور احمد ندیم قاسمی ’’امروز‘‘ کے اور ’’عنقا‘‘ کے قلمی نام سے کالم بھی لکھتے تھے۔ سید سبط حسن ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر تھے، ظہیر بابر اور حمید جہلمی ان کے علاوہ تھے جنہوں نے ایک کہکشاں بنا رکھی تھی پھر یوں ہوا کہ اکمل علیمی اپنی جاودانی مسکراہٹوں کے ساتھ امریکہ سدھار گئے اور پلٹ کر خبر ہی نہ لی۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ گویا وہ واپس آگئے ہیں۔ میں نے نذیر ناجی اور حسن نثار کا خیر مقدم اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ یہاں مجھ سے پہلے ہی براجمان تھے۔ آج کا مطلع کچھ اس نے سوچا تو تھا، مگر کام کردیا تھا جو میرے خوابوں کو اتنے رنگوں سے بھر دیا تھا