مشرف کے خلاف ٹرائل میں غیر جانبداری نظر آنی چاہیے: میاں نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’مشرف کے خلاف ٹرائل میں غیر جانبداری نظر آنی چاہیے۔‘‘ اور جس کو نظر نہ آرہی ہو اسے دکھائی جانی چاہیے جس طرح رویت ہلال کمیٹی میں چاند کو دیکھا اور دکھایا جاتا ہے، تاہم اس کے ٹرائل کا فیصلہ بذات خود غیرجانبداری کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ کام انتہائی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ جبکہ جنرل صاحب نے بھی مجھے اندر کرنے اور ہتھکڑیاں لگوا کر جہاز میں بٹھانے کا اقدام کافی احتیاط سے کیا تھا۔ انہوں کہا کہ ’’سینیٹ کے کردار میں نئی روح پھونکنے کی ضرورت ہے‘‘ چنانچہ نئی روح کی سپلائی کے ٹینڈر طلب کیے جائیں گے اور پرانی روح کو اونے پونے بیچنے کا عمل بھی پورا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کو چیلنجز سے نکالنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے‘‘ جبکہ پہلے قدم کے طور پر مشرف کے ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اٹارنی جنرل اور چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کررہے تھے۔ مشرف کے خلاف کارروائی کے انجام کا بھی سوچنا ہوگا: فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’مشرف کے خلاف کارروائی کے انجام کا بھی سوچنا ہوگا‘‘ اور اگر حکومت کہے تو میں اسے سوچنے پر تیار ہوں۔ اگرچہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں میرا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہوا ہے اور میری ترجیحات جوں کی توں موجود ہیں بلکہ فرطِ غم سے ان کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی جارہی ہے اور حکومت کو اس انجام سے ڈرانا اس لیے بھی ضروری تھا کہ یہ بھی خدا خوفی کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت میں شمولیت کا ارادہ نہیں ہے۔‘‘ کیونکہ جب حکومت کا ہی مجھے شامل کرنے کا ارادہ نہیں تو میرے ارادے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سابق صدر کے خلاف کارروائی سے پینڈورا باکس کھلے گا‘‘ کیونکہ خاکسار بھی ان کے معاونین میں شامل رہا ہے اور دوسروں کے ساتھ ساتھ اس پینڈورا بکس میں سے میں بھی برآمد ہوسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پرویز خٹک سے ملاقات کا خیر سگالی کے علاوہ اور کوئی ایجنڈا نہیں ہے‘‘ اگرچہ اس کا اظہار پہلے بھی کرتا رہا ہوں۔ آپ اگلے روز وزیراعلیٰ پختونخوا سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ دلاور علی آذرؔ غزلیات کے مجموعے ’’پانی‘‘ کے خالق دلاور علی آذرؔ کا تعلق حسن ابدال اٹک سے ہے۔ یہ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ہے جس میں کسی دیباچے یا فلیپ وغیرہ کا تکلف روا نہیں رکھا گیا۔ جو مسودہ مجھے ارسال کیا گیا ہے، کم از کم اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے، اس میں سے کچھ اشعار دیکھیے: درونِ خواب نیا ایک جہاں نکلتا ہے زمین کی تہہ سے کوئی آسماں نکلتا ہے دیکھ لو پھر یہ ستارہ نہیں روشن ہونا بجھ گیا میں تو دوبارہ نہیں روشن ہونا اک لہر یہاں آتی ہے نیندوں کے سفر پر اور خواب اترتا ہے سفینے سے ہمارا سب دیکھ رہی تھی پسِ دیوار تھا جو کچھ تھی چشمِ تماشائی تماشائی سے آگے تیری آسانی نے مشکل میں مجھے ڈال دیا میری مشکل نے ترے واسطے آسانی کی کسی منظر میں ہم دونوں کھڑے ہیں کسی منظر میں ویرانی ہماری اسی سے کارخانہ چل رہا ہے یہ دل بھی کیا عجب پُرزہ ہے صاحب تمہیں کیا کچھ نظر آتا نہیں ہے ہمیں کیا کچھ نظر آتا ہے صاحب روشنی پھیلتی نہیں کیونکر سب چراغوں کا جائزہ لیا جائے یوں نہ ہو جس پہ چل رہا ہوں میں کل یہی راستہ بنا لیا جائے کچھ تو ہوگا سخن سے ہٹ کر بھی لفظ کو دیکھیے اُلٹ کر بھی اس سے کچھ خاص تعلق بھی نہیں ہے اپنا میں پریشان ہوا جس کی پریشانی پر ایک مجموعے میں سے اتنے شعر نکل آنا بسیار غنیمت ہے ورنہ کئی مجموعوں سے چار چار شعر بھی نہیں نکلتے۔ تاہم اس شاعر کو اپنی سمت درست کرنے کے لیے اپنی غزل کو جدیدیت کا مزید تڑکا لگانا ہوگا جو جدید غزل کے مطالعے ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ نیز اسے اپنا لحن اور لہجہ استوار کرنے کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی تاکہ اس کا شعر نمایاں طور پر پہچانا جا سکے اور جو توانائی اس کے اندر موجود ہے اسے زیادہ خوبصورت طور پر ظاہر ہونے کا موقع مل سکے کیونکہ اس کی اُٹھان سے پتہ چلتا ہے کہ غزل کے میدان میں یہ صحیح معنوں میں کچھ کر کے دکھائے گا۔ اس کا بیان اسقام سے پاک اور خود اعتمادی کا جذبہ حیران کن ہے۔ اس شاعری نے مجھے مسرت سے ہمکنار کیا ہے اور میری دعائیں اس اُبھرتے ہوئے شاعر کے ساتھ ہیں۔ آج کا مطلع یہاں پہ عیبِ سخن بیشتر کسی کا نہیں خدا کی دین ہے‘ ورنہ‘ ہُنرکسی کا نہیں