سوئس مقدمات کھلوانے کے لیے رابطہ انتقامی کارروائی ہے… خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ’’سوئس مقدمات کھلوانے کے لیے رابطہ انتقامی کارروائی ہے‘‘ حالانکہ حکومت نے دوسرا خط لکھ کر پوری طرح سے وضاحت کردی تھی کہ حکومت یہ مقدمات نہیں کھلوانا چاہتی جو کہ ملکی و قومی مفادات کے عین خلاف تھا جبکہ سپریم کورٹ کو اس سے آگاہ اس لیے نہیں کیا گیا کہ حکومت اُسے کسی نئی مصروفیت میں نہیں الجھانا چاہتی تھی۔ نیز حکومت سوئس عدالت کا بھی قیمتی وقت بچانا چاہتی تھی کیونکہ ہمارے برعکس وہاں پر وقت کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے جبکہ صدر صاحب ویسے بھی چند ماہ تک اپنی مدت پوری کرنے والے ہیں جس کے بعد ان کا استثنیٰ بھی ختم ہو جائے گا حالانکہ سابق صدر ہونے کی وجہ سے بھی ان کا استثنیٰ باقی رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ ’’حکومت نوّے کی دہائی کی طرف لوٹ آئی ہے‘‘ حالانکہ گڑے مردے اُکھاڑنے کی بجائے اسے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے جبکہ حکومت کی یہ حرکت صدر زرداری کا مستقبل ہر طرح سے تاریک کرنے کے مصداق ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔ پاکستان کو جمہوریت کی ضرورت نہیں ہے… اعجاز الحق ضیاء لیگ کے صدر اور رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق نے کہا ہے کہ ’’پاکستان کو جمہوریت کی ضرورت نہیں ہے‘‘ اور اسی فلسفے کے تحت والد بزرگوار نے ملک میں مارشل لاء لگایا تھا جس کے جملہ فضائل و برکات فوراً ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے اور ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف سٹائل نظام رائج کیا گیا تھا جو آج تک نہایت کامیابی سے جاری و ساری ہے‘ نیز مرحوم کے متعارف کردہ مجاہدین بھی خوب پھل پھول رہے ہیں اور ملک بھر میں رونق لگی ہوئی ہے جس میں اللہ کے فضل سے شب و روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’الیکشن کے نتائج طے شدہ تھے‘‘ جبکہ خاکسار کی کامیابی بھی انہی طے شدہ نتائج ہی کی مرہونِ منت ہے ورنہ آج میں بھی کہیں دھرنے دے رہا ہوتا‘ اس لیے نتائج طے کرنے والوں کا دلی طور پر ممنون ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’کراچی اور بلوچستان میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ پانچ سالہ جمہوریت ہی کا ثمر ہے‘‘ جس سے بزرگوار محترم کی روایات پر خاطر خواہ عمل کیا جاتا رہا؛ چنانچہ انہیں قوم کے محسنِ اعظم کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے‘ خاص طور پر وزیراعظم صاحب کو اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیے جو ایک عرصے تک مرحوم کے سب سے بڑے نیاز مند رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں خطاب کر رہے تھے۔ 60 روز تک لوڈشیڈنگ میں نمایاں کمی آئے گی… رانا ثناء وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ’’60 دن تک لوڈشیڈنگ میں نمایاں کمی آئے گی‘‘ جبکہ وی آئی پیز کے ہاں تو لوڈشیڈنگ آتی ہی نہیں‘ اس لیے عوام کو کوشش کر کے وی آئی پیز میں شامل ہونے کی کوئی ترکیب نکالنی چاہیے تاکہ انہیں لوڈشیڈنگ کی شکایت باقی نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کراچی کا امن پورے ملک کے لیے ضروری ہے‘‘ کیونکہ جب سے میاں صاحب وزیراعظم بنے ہیں‘ کراچی کا امن بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مشرف کے خلاف مقدمہ آئین کا تقاضا ہے‘‘ نیز اس نے جو ہاتھ ہمارے ساتھ کیا تھا‘ ہمارے لیے اس کی داد دینا بھی ضروری تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ شہباز شریف عنقریب اندھیروں کو شکست دیں گے… حاجی حنیف مسلم لیگ ن لاہور کے سابق صدر حاجی حنیف نے کہا ہے کہ ’’شہباز شریف عنقریب اندھیروں کو شکست دیں گے‘‘ بشرطیکہ یہ مقابلہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہو تاکہ اس کی شفافیت میں بھی کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے اور اس میں وزیراعلیٰ کی فتح کی پیش گوئی بھی کی جا سکے کیونکہ اس کا نتیجہ ماشاء اللہ پہلے سے طے شدہ ہوگا البتہ لفظ عنقریب سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ یہ کئی سالوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے کہ ہر کام اپنے وقت پر ہی انجام پذیر ہوتا ہے جبکہ جلد بازی ویسے بھی شیطان کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انہیں راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو روند کر آگے بڑھنے کی عادت ہے‘‘ کیونکہ وہ ہر رکاوٹ کو یا تو فوری طور پر معطل کر دیا کرتے ہیں یا حسبِ موقع اس کی گوشمالی بھی کردیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اُن کا زیادہ تر وقت تعمیراتی منصوبوں کے بارے سوچ بچار کرتے گزرتا ہے‘‘ چنانچہ عملی اقدامات کے لیے انہیں زیادہ وقت میسر نہیں آتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ آج کا مطلع باقی تھا ابھی دن کہ بجی رات کی نوبت اتنی ہی تھی اک روز تو اس بات کی نوبت