گیس کی قلت پر قابو پانے کیلئے تمام وسائل استعمال کیے جائیں… وزیراعظم وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’گیس کی قلّت پر قابو پانے کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جائیں‘‘ چنانچہ ابتدائی طورپر جن لوگوں کے معدوں میں گیس کی وافر مقدار موجود ہے، اونے پونے داموں اسے حاصل کیا جائے جس سے ان کا اپنا بھی فائدہ ہوگا اور چونکہ یہ ایک مستقل بیماری ہے ، اس لیے مقررہ مدت کے بعد یہ گیس ان سے متواتر حاصل کی جاتی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’گیس کی تقسیم کے فارمولے میں گھریلو صارفین کو ترجیح دی جائے‘‘ البتہ گیس کے جو مریض اپنی گیس خوداستعمال کرنا چاہتے ہوں، ان سے گیس خریدنے کی کوشش نہ کی جائے اور اس خود کفالت سے انہیں بھرپور فائدہ اٹھانے دیا جائے ، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’اس سلسلے میں تمام وسائل استعمال کیے جائیں ‘‘ مثلاً اگر بعض جانوروں مثلاً بھینسوں وغیرہ کے پیٹ میں بھی گیس پیدا ہوتی ہو تو اس سے بھی استفادہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے پر کام جاری ہے‘‘ تاوقتیکہ امریکہ اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی سنجیدہ نہ ہوجائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ میاں نواز شریف اور فوج کے ستارے آپس میں نہیں ملتے …شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ’’میاں نواز شریف اور فوج کے ستارے آپس میں نہیں ملتے‘‘ حتیٰ کہ میرے اور نواز شریف کے ستارے بھی کئی بار ملتے ملتے رہ گئے، جبکہ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اکثر فلمی ستاروں کے ساتھ بھی میرے ستارے نہیں ملتے، اور، جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو میری چونکہ اس ادارے کے ساتھ روز اول ہی سے خصوصی نیاز مندی چلی آرہی ہے اس لیے اس کے ستارے مجھ سے اور میں ان سے رابطے میں رہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’سیاستدان مارشل لاء سے ٹپکے آم ہیں‘‘ جبکہ خاکسار ابھی کچا ہی تھا کہ آندھی کے زور سے ٹپک پڑا اور صرف اچار ڈالنے کے کام آسکا، اگرچہ اسے بھی بار بار اُلی لگتی رہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’اگر آرٹیکل 6لگانا ہے تو 1956ء سے شروع کریں‘‘ تاکہ اتنا گھڑمس مچ جائے کہ اس بھیڑ میں خاکسار آسانی سے ادھر ادھر ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’صدر زرداری نے سپریم کورٹ کے ساتھ مذاق کیا ‘‘تاہم، جوآم انہوں نے عمران خان کو پوری سنجیدگی سے بھجوائے تھے وہ موصوف نے ادھرادھر فقیروں میں تقسیم کردیئے جبکہ میں ناچیز نہ صدر زرداری کو نظر آیا نہ عمران خان کو حالانکہ الیکشن لڑ کرمیں بھی فقیروں میں شامل ہوچکا ہوں، آپ اگلے روز ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں گفتگو کررہے تھے۔ حکومت اتحادیوں سے مشاورت کرلیتی تو بہتر ہوتا …فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’مشرف کیس میں حکومت اگر اتحادیوں سے مشاورت کرلیتی تو بہتر ہوتا‘‘ حتیٰ کہ خاکسار بھی نہ صرف اس میں مفید مشورے دے سکتا تھا بلکہ اس بہانے اتحادیوں میں بھی شامل ہوجاتا جس کے لیے میاں نواز شریف کے ساتھ ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن موصوف نے پٹھے پرہاتھ ہی نہ رکھنے دیا حالانکہ کم ازکم ہاتھ تو رکھ لینے دیتے جوویسے بھی بابرکت ثابت ہوسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ امن وامان ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ‘‘ جبکہ خاکسار ماشاء اللہ خود بنفس نفیس بھی ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے جس سے ٹکراکر پاش پاش ہوجانے کے خوف سے حکومت نے اتحادی بنانے سے گریز کیا حالانکہ مجھ سے براہ راست ٹکرائے بغیر بھی حکومت اپنا نقصان کرلے گی، انشاء اللہ۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر انتخابات سے قبل میری بلائی گئی اے پی سی کی سفارشات پر عمل کرلیا جاتا تو گلگت بلتستان وغیرہ جیسے واقعات نہ ہوتے‘‘ چنانچہ اس سلسلے میں میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہورچوپو۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کا سوئس عدالت کو خط لکھنے کا معاملہ عدالت میں ہے، اس لیے رائے نہیں دے سکتا‘‘ حالانکہ اس کی مذمت تو کرہی سکتا تھا لیکن خواہ مخواہ تعلقات بگاڑنے کا کیا فائدہ ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ خلفشار کا فائدہ جمہوریت دشمن اٹھائیں گے…مرزا اسلم بیگ مسلح افواج کے سابق سربراہ جنرل (ر) مرزااسلم بیگ نے کہا ہے کہ ’’غداری کیس کے لیے کمیشن بننا چاہیے ورنہ خلفشار کا فائدہ جمہوریت دشمن اٹھائیں گے‘‘ اگرچہ انہیں جمہوریت دشمن تو نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ بھی جمہوریت کی خدمت کرنے ہی کے لیے آتے ہیں جس سے میں محض اپنی بدقسمتی کی بناء پر محروم رہا اور جنرل ضیاء الحق کا طیارہ پھٹنے پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا اور آج تک کف افسوس مل رہا ہوں، ورنہ جمہوریت کو چار چاند لگانے والوں میں میں بھی شامل ہوسکتا تھا، لیکن، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت بے وقت کی راگنی گانے سے پرہیز کرے‘‘ اور وقت کی راگنی کے لیے پرویز مشرف کی خدمات حاصل کرسکتی ہے جس میں طبلے کی تھاپ بھی شامل ہوگی اور جس کا انہیں وسیع تجربہ حاصل ہے۔ آپ اگلے روز روزنامہ ’’دنیا ‘‘ کو انٹرویو دے رہے تھے۔ حناگیلانی سے کوئی رشتہ نہیں … ترجمان یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’’سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا حنا گیلانی سے کوئی رشتہ نہیں‘‘ جبکہ موصوف کے رشتہ داروں کو ساری دنیا جانتی ہے جنہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک سابقہ دور میں جمہوریت کی خدمت کے ریکارڈ قائم کردیئے جنہیں کوئی نہیں توڑ سکتا کیونکہ ایسے ریکارڈز قائم کرنے کے لیے جس اہلیت اور جرأت کی ضرورت ہوتی ہے وہ کسی کسی میں ہی پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایسی کوئی خاتون یوسف رضا گیلانی کی رشتہ دار نہیں‘‘ اور، یہ اس کی انتہائی بدقسمتی ہے ورنہ اگر اسے یہ سعادت حاصل ہوتی تو دیگر اہل خاندان کے ساتھ ساتھ آج اس کے نام کا بھی ڈنکا بج رہا ہوتا لیکن افسوس کہ گمنامی کی زندگی ہی اس کا مقدر بن چکی ہے جس پر اسے بار بار کف افسوس ملنے کے علاوہ صبروشکر کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ ع یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا تاہم اب یہ خاتون کسی بھی طرح سابق وزیراعظم کی رشتے دار بننے کی کوشش یا دعویٰ نہ کرے۔ آپ اگلے روز اخبارات کو ایک وضاحتی بیان جاری کررہے تھے۔ آج کا مقطع کیا ہمیں نے یہ کارفضول جس میں، ظفرؔ سزابھی کچھ نہیں، انعام بھی نہیں ہوتا (گزشتہ کل کا مطلع یوں تھا) باقی تھا ابھی دن‘ کہ بجی رات کی نوبت آنی ہی تھی اک روز تو اس بات کی نوبت