بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں… صدر زرداری صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں ‘‘ بلکہ ہم تو حکومت کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات چاہتے تھے لیکن اس کی حرکات وسکنات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انتقامی کارروائی پر تلی ہوئی ہے حالانکہ ہم بھی اس کے خلاف مختلف مقدمات کھول اور چلاسکتے تھے، حتیٰ کہ ہم تو سپریم کورٹ کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات چاہتے تھے لیکن ایک خط نے بہت سی غلط فہمی پیدا کردی ہے جو ہم نے صرف اپنے ہائی کمشنر کو لکھا تھا کہ نشانی کے طورپر سنبھال کر رکھ لے کہ یہ خط ہمیں نہیں لکھنے دیا گیا تھا،ع اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کردیا تاہم، اگر اس شریف آدمی نے وہ خط آگے سوئس عدالت کو پہنچا دیا تو یہ اس کی کوتاہی تھی جس پر اسے سرزنش کردی گئی ہے کہ اگر آئندہ اس نے ایسا کیا تو ہم سے برا کوئی نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر شرت سبھروال سے بات چیت کررہے تھے۔ دانشمندانہ پالیسیاں اپنانے کا وقت آگیا ہے… میاں نواز شریف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’دانشمندانہ پالیسیاں اپنانے کا وقت آگیا ہے‘‘ جبکہ اب تک تو غیردانشمندانہ پالیسیوں ہی سے کام چلایا جارہا تھا، تاہم ہمیں دانشمندانہ پالیسیاں اپنانے کے وقت کا شدت سے انتظار تھا لیکن وہ آہی نہیں رہا تھا، اور ظاہر ہے کہ یہ وقت آنے سے پہلے دانشمندانہ پالیسیاں کیونکر اپنائی جاسکتی تھیں، حالانکہ یہ میرے بائیں ہاتھ کا کام تھا جبکہ دایاں ہاتھ کھانا وغیرہ کھانے کے لیے مختص ہوتا ہے جس سے ویسے بھی پورا پورا کام لیا جاتا ہے کیونکہ ہم کسی شعبے میں بھی کسی کوتاہی کے روادار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’انرجی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے‘‘ اور اصل کام بھی یہ تھا کیونکہ باقی کام اپنے آپ ہی ہوتا رہے گا کہ وقت تبدیل ہو چکا ہے اور کام کو اپنے آپ سرانجام پانے کی عادت پڑنی چاہیے کیونکہ حکومت نے آرام بھی کرنا ہوتا ہے، جبکہ قیلولہ تو خاص طورپر بہت ضروری ہے جس کے بعد ہی آدمی کوئی کام وغیرہ کرنے کے لیے تازہ دم ہوسکتا ہے، ہیں جی؟آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ ہمارا گلا گھونٹا گیا تو آنکھیں باہر آجائیں گی …خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ’’سوئس کیسز سے ہمارا گلا گھونٹا گیا تو آنکھیں باہر آجائیں گی‘‘ البتہ پیٹ کو نہ دبایا جائے ورنہ سارا کھایا پیا باہر آجائے گا۔ آنکھوں کی تو خیر ہے کیونکہ یہ دنیائے فانی کافی حدتک دیکھ لی ہے جبکہ ہم نے اسے ماشاء اللہ مزید دیکھے جانے کے قابل چھوڑا ہی نہیں کہ اسے دیکھنے کی بجائے عوام کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے جس کی مثال ہمارے دونوں سابق وزرائے اعظم بڑے فخر سے پیش کرچکے ہیں اور اپنی عاقبت سے بے نیاز ہوچکے ہیں کیونکہ ان کی اصل کرامات اب ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں کہ یہ دونوں کتنی پہنچی ہوئی ہستیاں تھیں جن کی دعا برکت سے ہمیں اپنے پانچ سال پورے کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ انہوں نے کہا ’’ایسا نہ ہوکہ پرویز مشرف بری ہوکر باہر چلے جائیں ‘‘ جب کہ ان کا واپس آنا ہی سمجھ میں نہیں آرہا کیونکہ ہم نے تو انہیں گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا تھا اور 21توپوں کی سلامی بھی دی تھی۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ میں گفتگو کررہے تھے۔ آموں کا تحفہ اچھی بات ہے لیکن رعایت نہیں ملے گی…رانا ثناء اللہ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ’’زرداری صاحب کی طرف سے آموں کا تحفہ اچھی بات ہے لیکن اس سے کوئی رعایت نہیں ملے گی‘‘ کیونکہ بازار میں جو اور طرح طرح کے پھل مثلاً لیچی، خوبانی، آلو بخارا اور چیری وغیرہ بھی موجود ہیں تو آم یعنی عام پھل بھجوانے کی کیا ضرورت تھی، اس لیے اس کوتاہی کا خیال رکھا جانا چاہیے، نیز عمران خان کو بھی آموں کی پیٹیاں بھجوا کر انہوں نے حساب برابر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی نظر میں عمران خان اور نواز شریف ایک برابر ہیں حالانکہ عمران خان وہ آم غریبوں وغیرہ میں تقسیم کرکے اس تحفے کی ناقدری کے مرتکب ہوچکے ہیں، ان حالات میں اگر صدر صاحب ہم سے کسی رعایت وغیرہ کی توقع رکھتے ہوں تو پہلے انہیں مندرجہ بالا باتوں پر غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اداروں سے کرپٹ اور نااہل افسروں کو فارغ کردیں گے ‘‘ تاکہ وہ دوسرے محکموں میں جاکر اپنے کمالات دکھاسکیں جہاں انہیں نئی چراگاہیں میسر آسکیں گی اور وہ ورائٹی وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوسکیں گے۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی سے باہر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ رفعت ناہید کی دو نظمیں میں نے گزری شب کو فون پہ طے کرڈالا …اب ملنا ہے …کب ملناہے… یا نہیں ملنا…اپنے معنی کھو بیٹھا ہے…ہم دونوں اپنے اسرار گنوا بیٹھے ہیں … اس کی آنکھیں…سب آنکھوں سے اچھی آنکھیں… میری پلکیں…سب پلکوں سے لمبی پلکیں…اپنے اپنے دلکش جادوکھو بیٹھی ہیں …اس کے ہاتھوں کی گرمی میں… اب ٹھنڈک ہے …(میری سانسوں میں پرکیوں یہ بھاپ بنی ہے) …دونوں کی آواز میں شک کی پھانس لگی ہے …لہجے کتنے بدل گئے ہیں …گارے جیسی گدلی سوچ پہ…ایک پرانی آس کے پائوں پھسل گئے ہیں …برفیلی خاموشی نے دل یخ کر ڈالا… میری دھڑکن پر سناٹا دوڑرہا ہے…میں نے سرپٹڑی پر رکھ کر…خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہے …اور جدائی چھک چھک کرتی میرے سر پر آپہنچی ہے۔ …………… پہلے اس نے شربت جیسی آنکھوں سے مخمور کیا … پھر آنکھوں میں پانی بھر کر اور بھی چکنا چور کیا… دل کو تھاما، آہ بھری… اور رونے پر مجبور کیا… کیسے کیسے دانے پھینکے… من کاپنچھی گھیر لیا…دروازے میں پلواٹکا…جوتی ٹوٹی، سانس اڑی…کمر پہ چٹیانے گھبرا کر بل کھایا …ہاتھ کا پنکھا‘ کان کی بالی میں الجھا اور چھوٹ گیا… اس نے مڑ کر ہنس کر دیکھا…کن اکھیوں میں شربت کھنکا… پھر مورکھ نے سارا قصہ…بستی میں مشہور کیا۔ رفعت ناہید کا تعلق ملتان سے ہے اور کلام ملک کے معیاری جرائد میں شائع ہوتا رہتا ہے۔ آج کا مطلع یوں بھی نہیں کہ میرے بلانے سے آگیا جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آگیا