کوئٹہ میں دہشت گردی اب برداشت نہیں کی جائے گی …نواز شریف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’کوئٹہ میں دہشت گردی اب برداشت نہیں کی جائے گی ‘‘ اور اب تک جو ہوچکا ہے اسی کو کافی سمجھا جائے کیونکہ ہم اتنی ہی برداشت کرسکتے تھے، لہٰذا زیادہ لالچ سے کام نہ لیا جائے اور کفایت شعاری اختیار کی جائے کیونکہ فضول خرچی کافی ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’شرپسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے ‘‘ اور اب تک جو امتیازی پالیسی روارکھی گئی ہے، اسی پر قناعت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردجہاں بھی ہوں گے، سخت کارروائی کی جائے گی ‘‘ لہٰذا دہشت گردحضرات سابق نرم کارروائی کو اب بھول جائیں اور سخت کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جانفشانی سے کام ہوتا رہا تو جلد امن قائم ہوجائے گا‘‘ بشرطیکہ کچھ جان باقی بھی رکھ لی جائے اور ساری کی ساری ہی نہ چھڑک دی جائے اور بے جان ہوکر بیٹھ نہ جائیں، ہیں جی؟ آپ اگلے روز کوئٹہ میں ہزارہ عمائدین سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ مسائل حل نہ کرسکے تو خیبرپختونخوا حکومت چھوڑ دیں گے …عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’اگر خیبرپختونخوا کے مسائل حل نہ کرسکے تو حکومت چھوڑ دیں گے ‘‘ البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کب چھوڑیں گے، تاہم میعاد پوری ہونے پر یقینا چھوڑدیں گے تاکہ اگلی بار یہ مسائل تسلی سے حل کرسکیں کیونکہ ہم کسی کام میں بھی جلد بازی کے قائل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’آزاد احتساب سیل بنایا جائے گا‘‘ جو پوری آزادی سے یہ فیصلہ کرسکے گا کہ کس کا احتساب کرنا ہے اور کس کو مزید موقعہ دینا ہے کیونکہ آدمی کو اپنی اصلاح کا موقعہ ضرور ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تین ماہ میں مثالی اقدامات ہوں گے‘‘ اور بتائیں گے کہ مثال کے طورپر یہ کام کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مشرف کے خلاف مقدمہ بے وقت ہے‘‘ کیونکہ انتظار کرنا چاہیے تھا کہ اسے اپنے کیے کی سزا خود ہی مل جاتی کہ اللہ میاں کا خودکار سسٹم ہروقت جاری وساری رہتا ہے اور ہم سب کو اللہ میاں پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے جس کی کمی ہی کی وجہ سے ہم اس حالت کو پہنچے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پرویز خٹک پر الزامات غلط ہیں‘‘ کیونکہ ان کی صحت ہی ایسی ہے کہ وہ کسی قسم کے الزامات کے متحمل ہی نہیں ہوسکتے۔ آپ اگلے روز ’’دنیا‘‘ نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کررہے تھے۔ نواز حکومت انتقامی کارروائیوں پر اتر آئی …کائرہ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’نواز حکومت انتقامی کارروائیوں پر اتر آئی ہے ‘‘ کیونکہ ہمارے خلاف جو کارروائی بھی ہوتی ہے، ہم اسے انتقامی کارروائی ہی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پی پی دور میں رکھے گئے غریب سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے نکالنا شروع کردیا گیا ہے‘‘ حالانکہ یہ بے چارے لاکھوں روپے خرچ کرکے بھرتی ہوئے تھے جس سے یہ اور بھی غریب ہوگئے تھے؛ تاہم اگر حکومت انہیں نکالنا بھی چاہتی ہے تو حکومت حق رسی کے طورپر ان کی ادا کردہ رقموں کی ادائیگی کا انتظام کرے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کرے جوان ملازمین سے فرداً فرداً پوچھے کہ انہوں نے کس کس کو کتنے کتنے لاکھ روپے ادا کیے تھے تاکہ اس کا حساب رکھا جاسکے اور جن ضرورت مندوں نے یہ پیسے وصول کیے تھے ان سے درگزر کیا جاسکے کیونکہ ضرورت ہی انسان سے سب کچھ کرواتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کیے جارہے ہیں ‘‘ پیسے لینے والوں کے نہیں بلکہ دینے والوں کے ۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کوانٹرویو دے رہے تھے۔ افضل خان کی شاعری ایسے غیرشاعر انہ نام کے ساتھ اتنی خوبصورت شاعری کرلینا واقعی اچنبھے کی بات ہے۔ اصولی طورپر افضل ان کا نام اور خان تخلص ہونا چاہیے۔ لیکن نام اور تخلص میں کیا رکھا ہے۔ ان کے کچھ شعر دیکھیے: تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا …………… اب جو پتھر ہے، آدمی تھا کبھی اس کو کہتے ہیں انتظار میاں …………… امکان قبولیت کی گھڑی کا تھا اس لیے مانگی نہیں کسی نے کسی کے لیے دعا …………… کہیں ایسا نہ ہو یارب کہ یہ ترسے ہوئے عابد تری جنت میں اشیا کی فراوانی سے مرجائیں …………… عشق تمہارا کھیل ہے، باز آیا اس کھیل سے میں میرے ساتھ ہمیشہ بے ایمانی ہوتی ہے …………… یہ جوکچھ لوگ خیالوں میں رہا کرتے ہیں ان کا گھر بار بھی ہوتا ہے، نہیں بھی ہوتا …………… مرا سارا اثاثہ اک تعلق تھا، اک آئینہ مگر اک روزجی چاہا کہ یہ بھی توڑدوں‘ وہ بھی …………… میں تجھے مل کے بھی ترسوں گا کنارے کی مثال تو گزر جائے گا دریا کی روانی کی طرح …………… لوگ ہی اتنے تھے دل کو خالی ہونے میں وقت لگا ہنستے بستے شہر بھی جنگل ہوتے ہوتے ہوتے ہیں …………… میں ریگ زار ہوں، ایسا گمان پڑتا ہے ہوا لگے تو بدن پرنشان پڑتا ہے …………… مرے وجود سے دھاگا نکل گیا ہے دوست میں بے شمارہواہوں شمارہوتے ہوئے …………… عیاں کیا ہے ترا راز فی سبیل اللہ خبر نہ تھی کہ ہے یہ بھی خبر برائے فروخت میں پہلے کوفہ گیا اس کے بعد مصر گیا اِدھر برائے شہادت، اُدھر برائے فروخت …………… یوں نہ ہو تو میری دنیا میں پلٹ آئے کبھی یوں نہ ہو مجھ سے مری تنہائی بھی جاتی رہے …………… پھر جواس شہر میں آنا ہو تو‘ ملنا مجھ سے گھر کا آسان پتہ یہ ہے کہ گھر ہے ہی نہیں مجھے اس شاعر نے خوش بھی کیا ہے اور حیران بھی۔ یقینا اردو غزل کا مستقبل ایسے ہی نوجوانوں سے وابستہ ہے’’ اک عمر کی مہلت ‘‘ کے نام سے یہ تحفہ کتاب سہ ماہی ’’نزول‘‘ گوجرہ کے ایڈیٹر اور شاعر اذلان شاہ نے چھاپی ہے۔ آج کا مقطع بادشاہ اپنا ہے دراصل کوئی اور، ظفرؔ اور، یہ ساری رعایا بھی کسی اور کی ہے