نیب چیئرمین کے لیے اتفاق رائے کی کوشش کر رہے ہیں… خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ’’چیئرمین نیب کے نام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ جو بڑی آسانی سے ہو جائے گا کیونکہ جو بھی چیئرمین آیا ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا جبکہ یہ دونوں جماعتوں میں شروع ہی سے طے ہو چکا ہے کہ نہ وہ ہمارے خلاف احتساب وغیرہ کی کارروائی کریں گے اور نہ ہم ان کے خلاف اور جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے اپنے دور میں اس طرح کا کوئی کام نہیں کیا حالانکہ اس کی پوری پوری گنجائش موجود تھی‘ کیونکہ ہم اگر ایک دوسرے کا احتساب کرنے لگ گئے تو سیاست اور اقتدار سے دونوں کی ہمیشہ کے لیے چھٹی ہو جائے گی اور یہ جو دونوں پارٹیاں باری باری موجیں مان رہی ہیں‘ یہ سب کچھ خواب و خیال ہو کر رہ جائے گا۔ لہٰذا کوئی بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کے جِنّ سیانے ہیں‘ البتہ باہر و باہر نورا کُشتی جاری رہے گی اور احتساب احتساب کا شور بھی مچاتے رہیں گے اور اندر سے ہمیشہ کی طرح شیرو شکر رہیں گے کہ آخر دونوں نے عوام کی خدمت بڑھ چڑھ کر کرنی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ مذاکرات بامعنی ہونے چاہئیں… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’مذاکرات با معنی ہونے چاہئیں‘‘ اگرچہ سب سے پہلے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مذاکرات ہوتے بھی ہیں یا نہیں‘ کیونکہ ادھر کوئی پیش رفت ہونے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی تُوت کھڑا ہو جاتا ہے‘ یعنی کہیں کوئی دھماکہ ہو جاتا ہے یا کچھ ایسی ہی واردات‘ جس کا الزام پاکستان پر لگ جاتا ہے حالانکہ دھماکوں نے خود ہماری مت سب سے زیادہ مار رکھی ہے‘ اس لیے با معنی مذاکرات بھی بالآخر بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’خطے میں امن کا دارو مدار پاک بھارت تعلقات پر ہے‘‘ جبکہ پاک بھارت تعلقات کا دارومدار کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کس چیز پر ہے اور جس پر میں ہر وقت سوچ بچار کرتا رہتا ہوں لیکن خیبر پختونخوا کے ماڈل بننے کی طرح یہ معاملہ بھی حل ہونے میں نہیں آ رہا۔ آپ اگلے روز لاہور میں سردار عتیق خان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ مرسی کے پسندیدہ آرمی چیف نے ہی انہیں فارغ کردیا… مشاہد حسین سینیٹ میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے دفاع سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ’’مصر میں صدر مرسی کے پسندیدہ آرمی چیف نے ہی انہیں فارغ کردیا‘‘ جس طرح میاں صاحب کے پسندیدہ آرمی چیف نے ان کی چھٹی کرا دی تھی اور بھٹو صاحب کے پسندیدہ آرمی چیف نے انہیں چلتا کردیا تھا۔ اس لیے آرمی چیف کو پسندیدہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے بلکہ جس حد تک بھی مخالف ہو‘ بہتر ہے۔ حتیٰ کہ غیر جانبدار آرمی چیف کے دل میں بھی حکومت کرنے کی خواہش کروٹیں لینے لگ جاتی ہے۔ اس لیے موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد میاں صاحب کو نیا آرمی چیف سوچ سمجھ کر لگانا چاہیے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا کر سب کو حیران کردے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نوازشریف نے مشرف اور زرداری کے کیس کھول کر غلطی کی ہے‘‘ جبکہ حکومت کرنے کے لیے مفاہمت سے کام لینا ضروری ہوتا ہے جیسا کہ زرداری صاحب کا مفاہمتی فارمولا ہی ان کے لیے اکسیر ثابت ہوا جس کی بدولت پانچ سال تک انہیں میاں صاحب کا دلی تعاون بھی حاصل رہا؛ تاہم یہی امید رکھنی چاہیے کہ یہ سارا کام بالآخر دکھاوا ہی ثابت ہو‘ جیسا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک شریفانہ معاہدے کے تحت طے ہو چکا ہے کہ ایک دوسرے کو چھیڑنا ہرگز نہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔ جونہی کوئی سچا آدمی ملا شادی کر لوں گی… میرا سینئر فلم ا داکارہ میرا نے کہا ہے کہ ’’جونہی کوئی سچا آدمی ملا‘ شادی کر لوں گی‘‘ کیونکہ اب تک جتنے بھی آدمی ملے ہیں وہ سیر سپاٹا کرنے کے بعد جھوٹے ہی نکلے جبکہ سچے آدمی کی تلاش میں ہی کوئی ڈیڑھ سو منگنیاں کروا کر توڑ چکی ہوں؛ تاہم مجھے کوئی جلدی بھی نہیں ہے کیونکہ ابھی میری عمر ہی کیا ہے‘ اور ابھی پچھلے ہی دنوں میں نے اپنی گولڈن جوبلی بڑی سادگی سے منائی ہے‘ بلکہ اب تو میں انگریزی بھی فر فر بول لیتی ہوں‘ اگلے روز میڈیا والے میری انگریزی سن کر حیران رہ گئے جو پہلے اسے سن کر پریشان ہو جایا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں اب تک جس جس آدمی سے میں نے منگنی کی‘ اس کی نظریں صرف میری جائداد پر تھیں اور وہ دغا باز نکلے حالانکہ انہیں میری بزرگی کا ہی کوئی لحاظ کرنا چاہیے تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک اور صدمہ جیسے میری راہ ہی دیکھ رہا تھا کہ میری والدہ الیکشن ہار گئیں کیونکہ ان کے ساتھ سخت دھاندلی ہوئی تھی‘ حتیٰ کہ شرپسندوں نے ان کی ضمانت بھی ضبط کرا دی۔ حالانکہ مخالفین کے لیے ان کا ہار جانا ہی کافی اطمینان بخش تھا‘ اس لیے کم از کم زرِ ضمانت تو انہیں واپس مل جانا چاہیے تھا‘ خدا کرے اتنا بے دید بھی کوئی نہ ہو۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔ حُسنِ اتفاق؟ پانچ جولائی کو رکن قومی اسمبلی اور ہمارے کرم فرما جناب اعجاز الحق نے یومِ نجات منایا جبکہ پیپلز پارٹی والوں نے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر یاد کیا۔ کیونکہ بقول اعجاز الحق صاحب 1977ء میں اسی روز الیکشن میں زبردست دھاندلی کے بعد چیف الیکشن کمشنر اس کا اعتراف بھی کر رہے تھے۔ اگرچہ بعض شرپسندوں کی طرف سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ یومِ نجات شرارت کے طور پر منایا گیا ہے کہ دراصل یہ بھٹو حکومت سے یومِ نجات کا دن تھا؛ چنانچہ یہ محض اتفاق تھا کہ موصوف کا یوم نجات عین اس دن آ گیا جس دن پیپلز پارٹی والے اسے یومِ سیاہ کے طور پر منا رہے تھے اور اعجاز الحق نے جان بوجھ کر اسے یومِ نجات سے موسوم کردیا؛ اگرچہ وہ ویسے بھی ایک تاریخی دن تھا کہ موصوف کے والد محترم نے محض قومی مفاد میں اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کی خاطر مارشل لاء لگا دیا تھا جو بالآخر کلاشنکوف کلچر متعارف ہونے سے روز بروز مستحکم سے مستحکم تر ہوتی گئی اور آج تک اسی طرح مستحکم نظر آ رہی ہے۔ جبکہ رہی سہی کسر ان کے زیر سایہ پنپنے والے مجاہدین نے نکال دی تھی جو اب ماشاء اللہ ترقی کر کے طالبان کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور اگر ان کا طیارہ حادثے کا شکار نہ ہو جاتا تو وہ اسے مزید مستحکم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔ آج کا مقطع پائوں پھیلاتا ہوں چادر دیکھ کر ہی میں‘ ظفرؔ کچھ مجھے اُس نے بھی ہے اوقات میں رکھا ہوا