چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چودھری نے این آئی سی ایل کرپشن کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ جس افسر کو ہم نوٹس دیتے ہیں، اسے ترقی دے دی جاتی ہے اور یہ کہ موجودہ حکومت کا رویہ بھی سابقہ حکومت جیسا ہی ہے۔ وزیراعظم کو اس بات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ایسی ہی کارستانیوں کے باعث عوام نے انتخابات میں پیپلزپارٹی والوں کو دروازے کا رستہ دکھایا اور موجودہ حکومت کو ایسے انجام سے بچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس خاکسار سمیت کم وبیش ہرکوئی حکومت سے بہتری کی امید لگائے بیٹھا ہے ، مخول شخول کی بات اور ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو ہمارا کالم پڑھتاہی کون ہے، نیز یہ کہ وزیراعظم نہ صرف یہ کہ خودایک تیزحس مزاح رکھتے ہیں بلکہ فقرہ چست کرنے میں بھی ایک خصوصی مہارت کے حامل ہیں ! وزیراعظم نے ایک اور اچھا کام یہ کیا ہے کہ نہ صرف اداروں سے خراب شہرت والے افسروں کو ہٹانا شروع کردیا ہے بلکہ کرپٹ افسروں کی فہرست بنانے کا بھی حکم دیا ہے تاکہ انہیں فارغ کیا جاسکے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ فہرستیں تیار کرنے والے حضرات خود کس قدر ایماندار اور غیرجانبدار ہیں جبکہ سابقہ حکومت کی ناکامی کا سب سے بڑا ذمہ دار بیوروکریسی ہی کو گردانا گیا ہے، حتیٰ کہ حکومت کی طرف سے اب یہ بات زور دے کر کہی جارہی ہے کہ چین کے اشتراک سے شروع ہونے والے منصوبوں میں سرخ فیتے کی عملداری کو ہرصورت روکا جائے گا۔ یہ بھی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہوگا جس میں اس کا کامیاب ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اخبار ی رپورٹوں کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے بڑے بڑے مفید منصوبے اگر بیوروکریسی کی سازشوں کا شکار نہ ہوئے تو آج عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نہ گزرنا پڑتا اور جس پر سابق حکومت نے آنکھیں بندکیے رکھیں۔ اسی مد میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کی کارگزاری بطور خاص لائق صد تحسین ہے، اور ایسے معاملات میں حکومت کا عدلیہ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ بارِدیگر حکومت اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑی ہوں گی تو جواس ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی جبکہ عدالتی احکامات سے چشم پوشی بھی حالات خراب ہونے کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ اگر حکومت ملک میں پھیلا ہوا ہرقسم کا گند صاف کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور بقول خود مشکل فیصلے کرنے میں کامیاب رہے تو عدلیہ بھی اس کی پشت پر ہوگی ور نہ سارا کیا کرایا خاک میں مل سکتا ہے۔ پنجاب حکومت خاص طورپر، کرپشن کے حوالے سے اپنی پارسائی کا ڈھول پیٹنے کی بجائے اگر پولیس، مال اور صحت وغیرہ کے محکموں کی طرف دھیان کرے تو کرنے کا بہت سا کام ابھی موجود ہے، لطف یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق اینٹی کرپشن کا محکمہ جو کرپشن کے انسداد کے لیے قائم کیا گیا تھا، خود کرپشن کی دلدل میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا ہے چنانچہ ان اہلکاروں کو ارکان اسمبلی کی بے جا سرپرستی کے چنگل سے نکالے بغیر صورت حال کی بہتری کا بس خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے جبکہ جونیئر افسروں کو سینئر حضرات کے اوپر تعینات کردینے کی افسوسناک روایت بھی ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آئی۔ حدتو یہ ہے کہ مقدمات میں ملوث اور مطلوبہ افسران بدستور عہدوں پر کام کررہے ہیں، جن حضرات کے خلاف انکوائری کے احکامات صادر کیے گئے وہ انکوائریاں دبادی گئی ہیں، اور اکثر ایسے افراد زیادہ ثمر آور جگہوں پر کسی نہ کسی طرح تعیناتیاں حاصل کرلیتے ہیں جبکہ دیانتدار افسر زیادہ تر کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں، میرٹ کا خدا حافظ ہے جس کے بلند بانگ دعوے باندھے جاتے ہیں، سو، سب سے پہلے وزیراعلیٰ کو اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کی ضرورت ہے تاکہ قول وفعل کا یہ تضاد دور ہوسکے۔ لیکن اس گئی گزری حالت میں بھی ایماندار ،فرض شناس اور اپ رائٹ افسروں کی کمی نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال اس خبر میں پنہاں ہے جس کے مطابق صوبائی محتسب جاوید محمود نے پابندی کے باوجود دفتر میں ایئر کنڈیشنر چلانے پر اپنے مانیٹرنگ افسر کو برخواست کردیا ہے جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر پروٹوکول کو معطل کردیا ہے۔ سردار جاوید محمود بطور چیف سیکرٹری اپنی خداداد صلاحیتوں کا بے عیب مظاہرہ پہلے ہی کرچکے ہیں۔ جب وہ ڈپٹی کمشنر لاہور تھے تو اپنے ماتحت افسروں کو رات گئے تک بٹھائے رکھتے تاکہ کام کی رفتار میں اضافہ ہو جس سے جملہ مجسٹریٹ صاحبان بطور خاص نالاں تھے۔ میرے فرسٹ کزن صفدر محمود ان دنوں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل تھے۔ ایک روز میٹنگ سے فارغ ہوکر ڈپٹی کمشنر جب اٹھ کر چلے گئے تو مجسٹریٹ صاحبان نے ان سے درخواست کی کہ انہیں تو آدھی رات تک ڈیوٹی دینے کے بعد اپنے اہل خانہ کے لیے وقت ہی نہیں ملتا، سو، ڈپٹی کمشنر صاحب کواس کے بارے میں بتائیں ۔ صفدر نے ڈی سی سے بات کی تو موصوف نے کہا ، صفدر انہیں بتا دوکہ میرا بھی یہی حال ہے، مجھے بھی بچوں کے لیے وقت نہیںملتا۔ موصوف وقت کے اتنے پابند تھے کہ ٹریفک جیم کی وجہ سے ایک روز کوئی دس منٹ تاخیر سے پہنچے تو بیرونی گیٹ پر ہی اپنی تعطیل کی اطلاع لکھ کر واپس چلے گئے ! سو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے ہاں اپ رائٹ افسروں کی کمی نہیں ہے، لیکن وہ بالعموم غیراہم جگہوں پر اپنا وقت پورا کررہے ہیں اور انہیں ڈھونڈنے، صحیح اور ذمہ دارانہ جگہوں پر تعینات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بیوروکریسی کا قبلہ درست ہو سکے۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، صرف خواہش اور ارادے کی ضرورت ہے ! آج کا مطلع نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے اور اس کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا ہے