بھارت سے بیک چینل ڈپلومیسی شروع کردی ہے …نواز شریف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’بھارت سے بیک چینل ڈپلومیسی شروع کردی ہے ‘‘ جبکہ سابقہ حکومت کے ساتھ بھی ہماری بیک چینل ڈپلومیسی تین ساڑھے تین سال تک نہایت کامیابی کے ساتھ چلتی رہی‘ جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں اور حکومت نے ہمارے خلاف زیرسماعت اور رکے ہوئے مقدمات کھولنے سے احتراز کیا۔ اب اسی ڈپلومیسی کے تحت ہم بھی ان سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت اور پیٹ میں کتنی آنتیں ہیں جو لبالب بھری ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں ‘‘ اور، اگر یہ نہ ہوسکا تو یک طرفہ تعلقات میں بہتری کو ہی جاری وساری رکھیں گے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان خطے میں قیام امن کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کررہا ہے ‘‘ جبکہ ملک کے اندر صورت حال ذرا ٹیڑھی ہوگئی ہے اور دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں سمجھ نہیں آرہی کہ یہ مذاکرات کیے کس کے ساتھ جائیں کیونکہ طالبان مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے چنانچہ اس ضمن میں بھی یک طرفہ ڈپلومیسی ہی سے کام لیا جارہا ہے۔ آپ اگلے روز برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ سے ملاقات کررہے تھے۔ نیب کے سامنے پیش نہیں ہوں گا استثنیٰ حاصل ہے …گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’نیب کے سامنے پیش نہیں ہوں گا، استثنیٰ حاصل ہے ‘‘ جبکہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد تو مجھے مزید استثنیٰ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ امتیاز صرف خاکسار ہی کے حصے میں آیا ہے کیونکہ آج تک کوئی اور وزیراعظم یہ سعادت حاصل نہیں کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ ’’سب کے سامنے موجودہوں ، چھپا ہوا نہیں ‘‘ کسی میں ہمت ہے تو آئے اور مجھے گرفتار کرلے ، کیونکہ جیل مجھے ویسے بھی بہت راس ہے اور اگر ماضی میں میں سزایاب ہوکر اتنا لمبا عرصہ جیل میں نہ گزارتا تو وزیراعظم نہ بن پاتا، چنانچہ اب بھی اگر مجھے پکڑ لیا گیا تو یہ پرلے درجے کی انتقامی کارروائی ہوگی جبکہ اپنے دور میں ہم نے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ہمیشہ تعاون کیا اور پریشان کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ’’ بطور وزیراعظم اپنے فرائض نیک نیتی سے ادا کیے ‘‘ ویسے بھی ہرایسا ویسا کام نیک نیتی ہی سے شروع کیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بیان جاری کررہے تھے۔ اے پی سی سے پہلے میری، نواز شریف اور جنرل کیانی کی ملاقات ہونی چاہیے…عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’اے پی سی سے پہلے نواز شریف، جنرل کیانی اور میری ملاقات ہونی چاہیے ‘‘ اور دوسری جماعتوں کے چھوٹے موٹے سربراہان کو بعد میں شامل کیا جاسکتا ہے تاکہ ان کی اشک شوئی کا اہتمام بھی ہوسکے۔ جنرل کیانی کے ساتھ میری ملاقات بیحد ضروری ہے کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے بعد میں نے آج تک کسی آرمی چیف سے ملاقات ہی نہیں کی اور اگر جنرل کیانی کبھی کوئی ریفرنڈم وغیرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو میری خدمات سے فیضیاب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’قومی سلامتی کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی جاسکتی‘‘ اور، قوم کو اس سلسلے میں بے خبر رکھنے کا یہ قیمتی سلسلہ جاری رہنا چاہیے بلکہ سب سے پہلے اسے ایک قوم بن کر دکھانا ہوگا جس کے لیے خاکسار بھی اپنی خدمات پیش کرسکتا ہے جیسے کہ میں اپنی کپتانی میں ٹیم کو پوری طرح سے متحد رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’امریکی اتحاد کے حوالے سے حکومت عوام کو اعتماد میں نہیں لے رہی ‘‘ حالانکہ صرف مجھے ہی اعتماد میں لینا کافی تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بیان جاری کررہے تھے۔ بجلی کے معاملات ڈرائونا خواب بن چکے ہیں …خواجہ آصف وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمدآصف نے کہا کہ ’’بجلی کے معاملات ڈرائونا خواب بن چکے ہیں‘‘ جن سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ لوگ سونا ہی بند کردیں کہ نہ سوئیں گے اور نہ ڈرائونے خواب آئیں گے یعنی نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری جبکہ بجلی یعنی پنکھے کے بغیر سونا ویسے بھی نیند حرام کرنے کے مترادف ہے جبکہ ہمارے عقیدے کے مطابق حرام چیزیں باقاعدہ ممنوع ہیں لہٰذا حرام چیزوں سے اجتناب کرکے یہ قوم اپنی عاقبت اچھی طرح سے سنوار سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئندہ چند روز میں بجلی مزید مہنگی کریں گے‘‘ تاہم بجلی جب آئے گی ہی نہیں تو عوام پر اس کی مہنگائی کا کیا اثر پڑسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تکلیف دہ آپریشن کرنا پڑے گا‘‘ تاہم آپریشن سے پہلے صارفین کو بیہوش کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ مہنگائی اور بجلی کی عدم فراہمی نے ان کے ہوش پہلے ہی گم کررکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’سرجری سے تکلیف تو ہوگی لیکن مریض صحتیاب ہوکر اس عمل کو سراہے گا‘‘ تاہم اس کے لیے مریض کا زندہ بچ رہنا ضروری ہے کیونکہ بعض مریض آپریشن تھیٹر میں ہی بقضائے الٰہی اپنی ناقص جان جانِ آفریں کے سپرد کر بیٹھتے ہیں اور اس طرح اس مسلسل عذاب سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نیوز ایجنسی سے بات کررہے تھے۔ معاصرانہ چشمکیں الطاف حسین بھٹہ کا تعلق وفاقی جامعہ اردو سے ہے اور وہ ’’اردو ادب میں معاصرانہ چشمک‘‘ کے عنوان سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کررہے ہیں۔ اس کا مختصر تعارف انہوں نے تحریری طورپر مجھے بھی ارسال کیا ہے اور ساتھ ہی فون پر بات کرتے ہوئے اس موضوع پر میرے خیالات جاننے کے لیے لاہور آکر ملاقات کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس فہرست میں جمیل یوسف اور ڈاکٹر انور سدید کے ساتھ میری معاصرانہ چشمک کا اندراج بھی موجود ہے۔ اس سلسلے میں میرا مؤقف یہ ہے کہ یہ سب حضرات میرے نہایت قابل احترام ہم عصر ہیں جن سے میری کسی چشمک کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، البتہ ان کے ساتھ ادبی اختلافات ضرور رہے ہیں اور وہ مجھ سے بھی اختلاف کرتے رہے ہیں لیکن اسے معاصرانہ چشمک ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ ہی میں ایسا کہا جانا پسند کروں گا کہ ادبی اختلاف ہرادیب کا نہ صرف حق ہے بلکہ اختلافات رائے کے بغیر ادب کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ اس لحاظ سے میری طرف سے معذرت ہے اور ان سے یہی گزارش کی ہے کہ اس مقصد کے لیے میرے ہاں آنے کی زحمت نہ اٹھائیں۔ آج کا مطلع کسی صبح سفر کی شام کرنا چاہتا ہوں اٹھا ہوں سوکے، اب آرام کرنا چاہتا ہوں