ایف آئی اے سے کرپٹ افسران کو ہٹا دیا جائے: وزیر داخلہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ’’ایف آئی اے سے کرپٹ افسروں اور اہلکاروں کو ہٹا دیا جائے‘‘ تاکہ وہ دوسرے محکموں میں جا کر طبع آزمائی کرلیں جبکہ زندگی کا اصل مزہ بھی ورائٹی ہی میں ہے، نیز یہ کہ اس سے اور مستحق لوگوں کو بھی اس زرخیز محکمے میں ہاتھ پائوں مارنے کا موقع میسر آسکے کیونکہ ہم مساوات کے قائل ہیں اور بیورو کریسی کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرسکتے جبکہ حکومت کی گاڑی چلانے کے لیے بالآخر ہم نے انہی سے کام لینا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’غیرقانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسروں کو ان کے محکموں میں واپس بھیجا جائے‘‘ کیونکہ اب تک وہ کافی آسودہ حال ہوچکے ہیں اور انہیں اب دوسرے مستحق لوگوں کے لیے جگہ خالی کر دینی چاہیے تاکہ ان کے حالات بھی کچھ تبدیل ہوسکیں۔ آپ اگلے روز ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کررہے تھے۔ میری گرفتاری کا مقصد آئین و پارلیمنٹ کی تذلیل کرنا ہے: گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’مقصد میری گرفتاری نہیں بلکہ آئین اور پارلیمنٹ کی تذلیل کرنا ہے‘‘ اور میں نے اپنی نیکو کاریوں سے آئین اور پارلیمنٹ کی عزت اور وقار میں جو اضافہ کیا تھا، اسے خاک میں ملانا ہے جبکہ اس میں اضافے کے لیے میں نے اور میرے پورے خاندان نے دن رات محنت کی اور ان دونوں اداروں کو چار چاند لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔اسی تگ و دود میں ہم سب تقریباً دیوالیہ ہو کررہ گئے ہیں جس کی تلافی اگلی بار ہی ہوسکتی ہے، حتیٰ کہ ہمیں اتنی توقع نہیں تھی کہ ہم جمہوریت، ملک و قوم کی اس قدر خدمت کر جائیں گے اور اتنی قربانیاں دے جائیں گے جس کی لوگ مثالیں دیا کریںگے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات میں شکست کی ایک وجہ مجھے جلسوں سے روکنا بھی تھا‘‘ ورنہ صرف لوگ میری نیک نامی ہی سے اس قدر متاثر تھے کہ جلسوں میں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیتے اور پانسہ پلٹ کر رہ جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’توقیر صادق کی تقرری قانون کے مطابق تھی، کوئی کرپشن میں ملوث ہوجائے تو میرا کیا قصور‘‘ اور اب اس بدبخت نے میرا نام بھی لینا شروع کردیا ہے اور اس سے بڑی احسان فراموشی اور کیا ہوسکتی ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں صحافیوںسے گفتگو کررہے تھے۔ اقتدار کے آم خراب ہوگئے ہیں:شیخ رشید پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سر براہ اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ’’اقتدار کے آم خراب ہوگئے ہیں‘‘ جنہیں اگر کھلی ہوا میں رکھا جاتا تو کبھی خراب نہ ہوتے حالانکہ میرے آم اگر کچے تھے تو کم از کم ان کا اچار تو ڈالا جاسکتا تھا نیز یہ کہ کچے آم کبھی خراب نہیں ہوتے اور میرے اچار کی عدم موجودگی ہی کی وجہ سے حکومت کو اقتدار ہضم نہیں ہورہا کیونکہ یہ ویسے بھی لکڑ ہضم، پتھر ہضم ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی چورن یا پھکی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپشن کا طوفان ہے اور غریب آدمی کے پاس کھانے کے پیسے نہیں‘‘ اور کرپشن کے اس طوفان میں سب کچھ بہہ جائے گا، ماسوائے میرے کیونکہ میں بجائے خود ایک ٹھیک ٹھاک طوفان کی حیثیت رکھتا ہوں جو اگرچہ ماضی میں قضائے الٰہی سے کافی دیر تک تھما رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اقتدار کے آموں کو زیادہ مسالہ لگ گیا تھا اس لیے وہ 40دنوں میں ہی پک کر خراب ہوگئے ہیں‘‘ جبکہ انہیں خاکسار جیسے ٹپکے کے آموں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے تھی چنانچہ اب ان سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہور چوپو! انہوں نے کہا کہ ’’الطاف حسین کے خلاف تحقیقات سے حالات خراب نہیں ہوںگے‘‘ اس لیے برطانوی پولیس کو ہمت سے کام لینا چاہیے۔آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل پرگفتگو کررہے تھے۔ لوڈشیڈنگ پر کافی حدتک قابو پالیا گیا ہے …رانا اقبال قائم مقام گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال نے کہا ہے کہ ’’لوڈشیڈنگ پر کافی حدتک قابو پالیا گیا ہے ‘‘ اور اگر عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے تو یہ عوام کا قصور ہے جنہیں چاہیے کہ اپنی عیاشانہ عادات کو ٹھیک کریں کیونکہ ہمیں جفاکشی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اس لیے کہ جو وقت آنے والا ہے وہ مزید نازک ہوگا اور کافی عبرتناک بھی جبکہ حکومت کوئی چھوٹا موٹا الہ دین کا چراغ تلاش کرنے کا پروگرام بنارہی ہے جس سے یہ جملہ مسائل حل کیے جاسکیں یا کسی اور طرح سے کسی کارآمد جن کا بندوبست کیا جائے گا کیونکہ یہ سارے مسائل حل کرنا کم ازکم انسانی بس سے باہر ہے اور میرے ایک سو سترسالہ تجربے کانچوڑ بھی یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم ظالم نہیں کہ لوگوں کو تڑپاتے رہیں ‘‘ خود عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ خواہ مخواہ اور فضول طورپر تڑپنے جیسی واہیات حرکتوں سے باز رہیں اور اپنے کام سے کام رکھیں کیونکہ تڑپتے رہنے سے آدمی ویسے بھی برا لگتا ہے اور اس طرح دوسروں کو بھی پریشان کرنے کا باعث بنتا ہے جوکہ دوسروں کے آرام میں دخل اندازی کے مترادف ہے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔ ڈاکٹرتحسین فراقی کا ’’مباحثہ‘‘ بحث اور اختلاف رائے کے بغیر شعر و ادب کی گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی کیونکہ ادب میں کوئی رائے بھی حتمی نہیں ہوتی اور اس میں طرح طرح کے پھول کھلتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے اس رسالے کا یہ دوسرا شمارہ ہے جس میں اردو دنیا کے چوٹی کے لکھاریوں کی نگارشات شامل ہیں جو نہ صرف یہ کہ سنجیدہ مطالعے کی پرجوش دعوت دیتا ہے بلکہ اس کا اہتمام بھی روا رکھتا ہے۔ تقریباً چھ سو صفحات پر پھیلے ہوئے ۔ اس یادگار جریدے میں شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، محمد سلیم الرحمن، قاضی جمال حسین اور محمد حمید شاہد سمیت شعرو ادب کی نامور ہستیوں کے مضامین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ رسالہ دوسرے رسائل سے ہٹ کر اور اپنی الگ شناخت رکھتا ہے کہ اس میں افسانوں، ڈراموں، شاعری اور سفر ناموں وغیرہ کی بجائے صرف ادبی مسائل پر مضامین شامل ہوتے ہیں جبکہ منٹو پر ایک گوشہ مخصوص ہے اور وقیع تراجم سے بھی اس کا دامن خالی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ممتاز مفتی اور مشفق خواجہ کے مختلف مشاہیر کے نام لکھے گئے مکاتیب بھی شامل ہیں۔ یہ اس پرچے کا صرف اجمالی تعارف ہے کیونکہ کالم میں گنجائش ہی اتنی تھی۔ آج کا مطلع میں وہ روش ہوں، ظفرؔ، گلشن خیال و خبر کی کہ جس پہ بھول گیا ہے کوئی گلاب لگانا