’’کئی موسم گزرگئے مجھ پر ‘‘ شاعر کے چار مجموعوں کو یک جاکرکے شائع کرنے کی واردات ہے۔ برادرم ہارون الرشید نے پچھلے دنوں اپنے کالم میں اس شاعر کی شاعری کا انتخاب کرنے کا عندیہ دیا تھا‘ اس لیے میں رک گیا اور اب جبکہ وہ بوجوہ یہ سعادت حاصل نہیں کرسکے ہیں تو میں نے اس جسارت کا ارادہ کیا ۔ اس کتاب میں شاعر کے اب تک شائع ہونے والے چاروں مجموعے ’’دیوار آب‘‘، ’’غدر ‘‘، ’’پری زاد‘‘ اور ’’پانی پر بچھا تخت‘‘ شامل ہیں۔ اس کتاب پر خاکسار سمیت جن حضرات نے اپنی رائے سے پس سرورق سجایا ہے ان میں انتظارحسین، مستنصر حسین تارڑ اور یاسمین حمید شامل ہیں۔ اس ہیچ مداں کے نزدیک محمداظہارالحق ایک عمدہ اور اعلیٰ شاعر تو ہے ہی، اس کی لفظیات اور شعری فضا بھی اسی سے مخصوص ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ اپنی اصطلاحوں اور استعاروں کے ذریعے موجودہ صورت حال کو قابلِ رشک انداز سے بیان کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ اس کے ہاں جدید اردو غزل کا موسم یکسر تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کی ہوائیں، پھل پھول اور گھاس پات تک مختلف ہیں۔ انتظار حسین کے مطابق محمد اظہارالحق غزل کے ساتھ ساتھ آزادنظم کہنے میں بھی یکساں مہارت کا حامل ہے۔ ان ہر دو اصناف سخن میں اس نے ایک ایسا ڈکشن استوار کیا ہے جو اسے اپنے دیگر ہم عصروں سے ممتاز کرتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ اظہارالحق کی شاعری ایک اجڑا ہوا خیمہ ہے…ایک رخسار زیر آب ہے …اور ایک سفید چادرِ غم ہے …وہ اس اجڑے ہوئے خیمے کے نوحے لکھتا ہے اور اسے پھر سے آباد دیکھنا چاہتا ہے‘ اس رخسار زیر آب کی حدت محسوس کرتا ہے اور ایک سفید چادرغم اوڑھے یوں کپکپاتا ہے جیسے کسی صحیفے کے اترنے کا منتظر ہو …گارسیامارکیز نے کہا تھا کہ ہرمرد…نامرد ہوتا ہے اور پھر ایک عورت آتی ہے جو اسے مرد بنادیتی ہے، میں صدق دل سے یہ سمجھتا ہوں کہ جب شاعری …ناشاعری ہوجاتی ہے تو پھر ایک اظہارالحق آتا ہے جو اسے شاعری بنادیتا ہے۔ یاسمین حمید کی رائے میں اظہارالحق کا اسلوب نمایاں طورپر جدید ہے اور جدید اردو غزل میں اسے رجحان ساز تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ مرزا حامد بیگ اور قمر جمیل نے بالترتیب ’’دیوارِ آب‘‘ اور ’’غدر‘‘ کے خوبصورت دیباچے لکھے ہیں۔ مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں: ’’یہ داخلی مونو لاگ قرن ہاقرن سے موجود لمحے تک پھیلا ہوا ہے۔ ’’پدرسری‘‘ نظام زیست ، فرد کے منظرنامے کو عنوان مہیا کرتا ہے۔ محمداظہارالحق کی ایسی داخلی خود کلا میاں لفظیات کی گرفت میں آنے سے پہلے ذہنی تصورات کی کیفیات ہیں جو اشعار کے بین السطور ڈوبتی ابھرتی ہیں۔ ’’دیوارِآب‘‘ اندھیرے کی دیوار میں چنے ہوئے شاعر کے خوابوں سے ترتیب پاتی ہے۔ تاریک کینوس کے پیش منظر پر رکے ہوئے چاند کی گزرگاہ ، شاعر کی منزہ آنکھ میں سجے ہوئے خوابوں کی سرزمین ہے۔ شاعر اپنی آنکھ کے واحد نظارے میں ڈھلتے ہوئے ناپسندیدہ عناصر کے مقابل اپنے خوابوں کی تعمیر کرتا ہے۔ چاند ، سورج ، ستارے اور زمین وآسماں کے متعلقات ، جن میں زیتون کے باغات ہیں اور ان میں اڑتے پھرتے سرخ طائر، ان سب کو موجودہ صورت حال کا گواہ ٹھہرایا گیاہے اور ’’زرپوش امت‘‘ کے حوالے سے شاعر اپنے لہورونے کی واردات سے اپنے ہمزاد ستارے کو آگاہ کرتا ہے ‘‘ قمر جمیل یوں نکتہ سرا ہیں : ’’دیوار آب‘‘ میرے لیے ایک سیلاب خوشی کا لایا، ہرچند کہ خوشی پسِ دیوار گریہ محسوس کی اور اصل اصولِ شعر بھی ہے کہ شاعری لذتِ الم سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ اللہ کیا تبدیلی چند برسوں میں اردو شاعری میں آئی ہے۔ پرانے سکے ٹکسال باہر ہوئے جاتے ہیں اور نئے سے نئے سکے ڈھل رہے ہیں، ان میں سے کم ایسے ہوں گے جن کے سکّے معتبر ہوں گے لیکن ماشاء اللہ آپ کا سکہ استقامت پذیر ہوگا۔ میں جب بعض شعرا کے کلام کو پڑھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت نے اپنی پوشیدہ تصویریں ان کے خوابوں میں عریاں کردی ہیں، ایسا ہی آپ کی شاعری میں محسوس کرتا ہوں، بھائی آپ نے کیسے کیسے شعر نکالے ہیں !‘‘ برادر موصوف کے لیے اظہار کی شاعری کے انتخاب کا حق محفوظ کرتے ہوئے میں یہاں صرف چند شعر آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے درج کررہا ہوں اور واضح رہے کہ اس گٹھڑی میں اور بھی بہت سا مال موجود ہے۔ اگر صاحبِ موصوف سے یہ کام اب بھی ہونے سے رہ گیا تو یہ خدمت میں سرانجام دینے میں خوشی اور فخر محسوس کروں گا: کئی موسم گزرگئے مجھ پر احرام کے ان دو کپڑوں میں کبھی پتھر چوم نہیں سکتا، کبھی اذن طواف نہیں ہوتا زہے وہ گرد جو ان کی سواری نے اڑائی میں آنکھوں میں کہاں تک محض بینائی رکھوں گا اندھیرے کی لہروں پہ میں ہوں، مری کشتیاں آرہی ہیں کنارے پہ تو چل رہی ہے‘ تری روشنی اُڑ رہی ہے کبھی دمکیں سونے کے ذرے‘ کبھی چمکے مرغابی کا لہو کئی پیاسے کب سے کھڑے ہیں مگر پانی شفاف نہیں ہوتا پانی اور ہوائیں تیرے جلو میں تھیں کس برتے پر دیا جلاتے تیرے لیے غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے زمیں پہ زائچے کہتے رہے کچھ اور مجھے وہ آسماں پہ ستارے مرے بدلتا رہا یہ مانا جسم مٹی کے جہانوں میں بنے ہیں مگر رخسار و لب کن کارخانوں میں بنے ہیں ابھی اترا نہیں ہے آخری عاشق زمیں پر ہمارے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا خدا نے ان میں پہلے سینکڑوں مہتاب رکھے پھر اس کے بعد یہ رخسار زیرِ آب رکھے آج کا مطلع ہماری تمہاری ملاقات چمکی نہیں لبوں پر اندھیرا رہا، بات چمکی نہیں