مظاہرے کرنے والوں کے پیچھے بجلی چوروں کا ہاتھ ہے …خواجہ آصف وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ’’مظاہرے کرنے والوں کے پیچھے بجلی چوروں کا ہاتھ ہے ‘‘ بالکل اسی طرح جیسے ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوڈشیڈنگ ہفتوں یا مہینوں میں ختم ہونے والی نہیں ‘‘ بلکہ اس میں صدیاں تک لگ سکتی ہیں کیونکہ ہم یہ کام پوری تسلی سے کرنا چاہتے ہیں اور امید ہے کہ اس وقت تک لوگ اس حدتک لوڈشیڈنگ کے عادی ہوجائیں گے کہ بجلی آنے پر ادھر ادھر چھپتے پھریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام صبر کریں ‘‘ کیونکہ اللہ میاں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں اور کیا عوام اللہ میاں کا ساتھ نہیں چاہتے اور سیدھا دوزخ کا رخ کرنا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ’’بجلی دکانوں پر فروخت نہیں ہوتی کہ خرید کر بانٹ دیں ‘‘ اگرچہ انتخابات سے پہلے ہمارا یہی خیال تھا کیونکہ ابھی ہم کامیاب نہیں ہوئے تھے، چنانچہ اب صورت حال ایسی ہے کہ ہم نے تقریباً مارکیٹ کی ہردکان پر استفسار کیا ہے لیکن کسی پر بھی بجلی دستیاب نہیں ہے۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ مسلم لیگی صدارتی امیدوار کی حمایت کا فیصلہ نہیں کیا … فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’ہم نے ممنون حسین کی حمایت کا فیصلہ نہیں کیا ‘‘ کیونکہ جب تک حکومت خاکسار کے بارے میں کوئی فیصلہ کرکے اس کا اعلان نہیں کرتی، اس وقت تک ہمارا فیصلہ کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ حکومت اس بارے میں منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھی ہوئی ہے، نہ منہ سے بولتی ہے نہ سر سے کھیلتی ہے، حالانکہ اسے ابتدائی طورپر کم ازکم ان گھنگنیوں ہی میں سے میرا حصہ نکال لینا چاہیے تھا جبکہ اس کا اعلان تھا کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلے گی حالانکہ خالی پیٹ آدمی آخر کہاں تک ساتھ چل سکتا ہے جبکہ خود حکومت بھی خالی پیٹ ایک قدم تو چل کر دکھائے کہ ہم نے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ ہمیں فاقہ کشی پر مجبور کردے، اگرچہ یہ رمضان کا مہینہ ہے لیکن روزے کی حالت میں بھی انسان شام تک ہی بھوکا پیاسا رہ سکتا ہے، آخر اسے افطاری کے لیے بھی تو کچھ چاہیے کہ نہیں؟ لیکن یہاں اس کا بھی کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا۔ آپ اگلے روز اپنے ترجمان جان اچکزئی کے ذریعے اسلام آباد سے ایک بیان جاری کررہے تھے ۔ نواز لیگ نے ایم کیوایم کو پھر زندہ کردیا …شیخ رشید احمد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ’’نواز لیگ نے ایم کیوایم کو پھر زندہ کردیا‘‘ حالانکہ خوداسے زندہ و جاوید ہونے کی ضرورت تھی اور میں یہ کام بڑے احسن طریقے سے سرانجام دے سکتا تھا لیکن ہزارکوششوں کے باوجود میاں صاحب نے پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیا حالانکہ میں ان کی غیرمشروط حمایت کرنا چاہتا تھا جس طرح ایم کیوایم نے کیا ہے لیکن اپنی شرطوں کا اعلان نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نواز شریف نے زرداری سے یہ سیکھ لیا ہے کہ شمال اور جنوب آپس میں کیسے ملتے ہیں‘‘ جبکہ میں انہیں سکھا سکتا تھا کہ مشرق اور مغرب آپس میں کیسے ملتے ہیں، اور اس طرح وہ چاروں طرف حکمرانی کرسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت نے 50دن میں عوام کے لیے کچھ نہیں کیا‘‘ حتیٰ کہ میرے جیسے عوام کے نمائندے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا جس کی جماعت کا نام بھی عوامی مسلم لیگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کو ایک نوجوان رہنما کی ضرورت ہے ‘‘ بالکل خاکسار جیسا، جس نے کم عمری ہی کی وجہ سے ابھی تک شادی بھی نہیں کی۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔ بجلی چوری میں ملوث عملہ سیدھا ہو جائے ورنہ بلوچستان بھیج دیں گے …عابد شیر علی وفاقی وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ’’بجلی چوری میں ملوث عملہ سیدھا ہوجائے ورنہ بلوچستان تبادلہ کردیں گے ‘‘ اور، وہاں جاکر انہیں معلوم ہوگا کہ کالا پانی کسے کہتے ہیں اور ان کے واپس آجانے کے امکانات کتنے ہیں جبکہ حکومتوں نے اس علاقے پر خصوصی توجہ دے کر اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ سرکاری اہلکار اور افسروہاں بھیجے جانے کے نام پر ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور عبرت گاہ کو دور ہی سے سلام کرتے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس نااہل سرکاری ملازمین کو سیدھا کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے جبکہ حکومت کو اس کا خیال پہلی مرتبہ آیا ہے جبکہ ہر حکومت پہلے تو یہی سمجھتی رہی ہے کہ جمہوریت کا زمانہ ہے، اس لیے کرپٹ عناصر کو پریشان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے، انہوں نے کہا کہ ’’ایسے ملازمین یاد رکھیں کہ میرا نام شیر ہے‘‘ اور میرا انتخابی نشان بھی شیر تھا، چنانچہ ان کا مقابلہ ایک نہیں بلکہ دوشیروں سے ہے، اور، شیر چاہے سرکس کا ہو، شیر ہی ہوتا ہے، اس لیے کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ ن لیگ کے نائن زیرو جانے پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں …منظور وٹو پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ’’ن لیگ کے نائن زیرو جانے پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں‘‘ جبکہ ہم نے پانچ سال تک عوام کی جو خدمت دونوں ہاتھوں سے کی ہے، اس پر کوئی سوالیہ نشان نہیں اٹھا بلکہ اب تک داد و تحسین کے ڈونگرے برس رہے ہیں اور کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، حتیٰ کہ اگرچہ عوام نے ہمیں ووٹ نہیں دیئے لیکن اپنی دعائوں میں ہمیں ضرور یادرکھا کہ اس بار ہمیں دعائوں کی کچھ زیادہ ہی ضرورت تھی کہ اللہ میاں خیر کرے کہ عوام کی خدمت کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہوگئی ہے جبکہ اللہ میاں کو صرف اعتدال پسند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایم کیوایم کے بارے میں ن لیگ کے نظریات سے سب واقف ہیں، اب ان کی سوچ کیسے تبدیل ہوگئی‘‘ لیکن الحمد للہ، ہماری سوچ شروع سے لے کر مدت پوری ہونے تک ایک ہی رہی اور تمام تر حضرات خشوع وخضوع سے جس کام پر لگے ہوئے تھے، اسے جاری رکھا کیونکہ کام ماشاء اللہ بابرکت ہی اتنا تھا۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ آج کا مقطع کتنے بے عقل تھے، وہ بھی نہ سمجھ پائے ظفرؔ اک اشارہ تھا جو اعلان سے ملتا جلتا