مسائل گھر کی دہلیز پر حل کرنے کے لیے تجاویز دی جائیں: نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’مسائل گھر کی دہلیز پر حل کرنے کے اقدامات تجویز کیے جائیں گے‘‘ البتہ جن گھروں میں دہلیزیں نہیں ہیں ان سے اس سلسلے میں معذرت ہے تاآنکہ وہ اپنے اپنے گھر میں دہلیز لگوا نہ لیں بلکہ ان کے لیے بہتر ہوگا کہ کنور ٹیبل دہلیزیں لگوائیں تاکہ مسائل کے حل کے لیے وہ اپنی دہلیزیں یہاں لے آئیں اور مسائل کے حل ان کی دہلیزوں پر رکھ دیئے جائیں، تاہم جن کے گھر ہی نہیں وہ سب سے پہلے شہباز صاحب کی آشیانہ سکیم میں گھر حاصل کریں جس سے دہلیز کا مسئلہ اپنے آپ ہی حل ہوجائے گا اور اگر ان کے لیے یہ بھی ممکن نہ ہو تو جس جگہ یا میدان میں وہ رہائش پذیر ہوں وہاں صرف دہلیز لگوا لیں۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’بلدیاتی نظام‘‘ میں عوام کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے‘‘ اگرچہ گمشدہ چیز مشکل ہی سے دستیاب ہوتی ہے تاہم تلاش کرنے میں کیا ہرج ہے کیونکہ کسی نے ٹھیک ہی کہہ رکھا ہے کہ جو ئندہ یا بندہ۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں اور میاں شہباز شریف سے مشاورت کررہے تھے۔ صدارتی انتخاب کے نام پر بھی تماشہ کیا جارہا ہے: ڈاکٹر قدیر ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ’’صدارتی انتخاب کے نام پر بھی تماشہ کیا جارہا ہے‘‘ حالانکہ میں نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر اس عہدے کی پیشکش ہوئی تو قبول کرلوں گا لیکن حکومت سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ پیشکش ہی کردے اور اس تماشے سے بچ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پہلے کوئی غیرجانبدار صدر آیا ہے نہ اس کی امید ہے‘‘ حالانکہ میری غیر جانبداری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجھے جانبوں کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے کیونکہ میں ہر چیز منجانب اللہ سمجھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جو بھی صدر آئے گا وہ وزیراعظم کی مرضی سے چلے گا‘‘ حالانکہ اسے وزیراعظم کے خلاف چلنا چاہیے ورنہ صدر بننے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ اکیلا وزیراعظم ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ذاتی مفادات کے لیے اصولوں کا جنازہ نکال دینا کوئی نئی بات نہیں‘‘ اور یہ بہت نامناسب بات ہے کیونکہ جنازہ صرف انسانوں کا نکالا جاتا ہے جبکہ اصولوں اور دیگر اشیاء کو جنازہ پڑھنے کے بغیر ہی دفن کر دینا چاہیے لیکن کیا کیا جائے، ہم نے اپنی روایات ہی سے روگردانی شروع کردی ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی رہنما ڈاکٹر بلوچ سے فون پر بات کررہے تھے۔ ایم کیو ایم سے اتحاد کے مسئلے پر مشاورت نہیں کی گئی: فضل الرحمن جمعیت علما ئے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’حکومت نے ایم کیو ایم سے اتحاد کے معاملے پر ہم سے مشاورت نہیں کی‘‘ اور اس طرح اس نے ہمارے ہی ٹھوٹھے پر ڈانگ ماری ہے کیونکہ جن وزارتوں کے ہم امیدوار تھے وہ اب ایم کیو ایم والے لے جائیں گے اور اس طرح ہمیں قوم کی خدمت کرنے کے موقع سے محروم کردیا جائے گا جبکہ ہمیں تو شروع سے ہی دال میں کالا کالا نظر آرہا تھا کہ حکومت نجی دوروں، نجی سیروں کی مایوس کن پالیسی پر عمل پیرا ہے ورنہ ہم انہیں یہ عاجزانہ مشورہ دیتے کہ پہلے ہم سے اتحاد کی بات کرلیں اور ہماری ترجیحات حل کردیں اور اس کے بعد ایم کیو ایم چھوڑ کسی بھی جماعت سے اتحاد کرتے پھریں لیکن اس نے اس انتہائی مفید مشورے کی قدر نہ کی حالانکہ ہم روز اول سے یہ بیان دے دے کر ہلکان ہورہے ہیں کہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں، تاہم اب ہمیں بھی یہ احساس ہورہا ہے کہ مفت میں اتحادی بننے کا کیا انجام ہوتا ہے، تاہم ہم اب بھی مایوس نہیں ہیں کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔ آپ اگلے روز اپنے ترجمان جان اچکزئی کے ذریعے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ کرپشن برداشت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سعد رفیق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’کرپشن برداشت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ کیونکہ یہ جہاں جہاں بھی ہورہی ہو، ہم صاف کہہ دیں گے کہ ہم اسے برداشت نہیں کرتے تاکہ یہ شرمندہ ہو کر خود ہی ختم ہو جائے کیونکہ میں اگر کرپشن ختم کرنے میں لگ جائو ںتو ساری رکی ہوئی گاڑیاں کون چلائے گا، چنانچہ اگر ایک وقت میں ایک کام ہی ہوجائے تو اسے غنیمت سمجھا جائے اور حکومت سے زیادہ لالچ کا مظاہرہ نہ کیا جائے جبکہ کام کرنے کے لیے حکومت نے ایک ہی ہاتھ مختص کر رکھا ہے۔ جبکہ دوسرا اتحاد دیگر خدمات کے لیے ہے جن کا اعلان قومی مفاد میں نہیں ہے اور وقت آنے پر یہ خود ہی منکشف ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’صدارتی انتخاب سے جمہوری ادارے مزید مضبوط ہوں گے‘‘ اگرچہ یہ سابق صدارتی انتخاب سے ہی کافی مضبوط ہوچکے ہیں، تاہم اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ اس دفعہ پوری ہوجائے گی، فکر کرنے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، کیونکہ ہم عوام کی پریشانیاں ہی ختم کرنے کے لیے آئے ہیں بشرطیکہ وہ آہستہ آہستہ خود ہی ختم نہ ہوگئے۔ آپ اگلے روز ریلوے ہیڈکوارٹرز میں اجلاس اور افطار پارٹی سے خطاب کررہے تھے۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ سے صدارتی انتخاب متنازعہ ہوگیا: عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد صدارتی انتخاب متنازع ہوگیا‘‘ اور اسی لیے ہم بھی اس میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ یہ مزید متنازع ہوجائے کیونکہ ہم اس میں احتجاجاً حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن نے اسے متنازع بنایا ہے‘‘ جبکہ عام انتخابات ہی کچھ کم متنازع نہ تھے اور انہیں بھی ہم نے احتجاجاً تسلیم کیا تھا چنانچہ بعض ارکان نے ہمیں مشورہ دیا ہے کہ جماعت کا نام پاکستان تحریک احتجاج رکھ دیا جائے جس پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے جبکہ اس کا نام دھرنا پارٹی اس لیے نہیں رکھا جاسکا کیونکہ یہ نام مولانا طاہر القادری نے پیٹنٹ کروا رکھا ہے ورنہ اس نام میں کشش زیادہ تھی کیونکہ ہم عید کے بعد یہی کارخیر شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، چشم بددور! انہوں نے کہا کہ’’ کارکن تیار رہیں، سڑکوں پر آنے کی کال دے سکتا ہوں‘‘ چنانچہ اس سلسلے میں حکومت سے بھی درخواست ہے کہ سڑکیں اچھی طرح سے صاف کروا دے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ آج کا مقطع جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے