ابھی ہم ’’اسالیب‘‘ کے سالنامے کی دو ضخیم جلدوں ہی کے نشے میں تھے کہ ’’کولاژ‘‘ کی صورت میں ایک اور صحت مند بلکہ تنومند جریدہ نظر نواز ہوا ہے جو بڑے سائز کے کم و بیش 6سو صفحات کو محیط ہے ۔یہ اس رسالے کا دوسرا شمارہ ہے جو تقریباً ایک سال کے بعد شائع ہوا ہے، اس لیے اسے بھی سالنامہ ہی کہنا چاہیے، اگرچہ یہ بظاہر اس کا عام شمارہ ہے اور یہ ماننا پڑے گا کہ رسالہ سازی کی ’’صنعت‘‘ میں کراچی سب سے آگے ہے، اس لیے شعرو ادب سے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہایت دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ چھپنے والے اس پرچے کی سب سے زیادہ خوش گوار بات یہ ہے کہ اس میں دبیز آرٹ پیپر پر شائع ہونے والے 15 رنگین اشتہارات بھی شامل ہیں اور اگر کراچی میں یہ روایت پڑ گئی تو اس سے زیادہ مسرت انگیز بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ کم و بیش 10 حمدوں اور نعتوں کے علاوہ شروع میں مضامین ہیں جن کے بعد افسانے، غزلیں، نظمیں، رپورتاژ اور بہت سی دیگر تحریریں دل و دماغ کو روشن کرتی نظر آتی ہیں۔ مضامین میں پروفیسر ڈاکٹر منظور احمد، شمس الرحمن فاروقی، انور سدید، ستیہ پال آنند، شفیع عقیل، مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر نجیب عالم، ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور کئی اور اہم نام شامل ہیں۔ خصوصی مطالعہ میں شاعر ساقی فاروقی کے نام مشاہیر ادب کے مکاتیب، کونسٹین کا ناولٹ جسے راشد اشرف نے ترجمہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں سعادت حسن منٹو کا مشہور افسانہ ’’شہید ساز‘‘ جبکہ ’میورل‘ سمیع آہوجہ نے بنایا ہے۔ ’’سعادت حسن منٹو امر ہے‘‘ کے عنوان سے افسانہ نگار طاہرہ اقبال کا رپورتاژ ہے۔ اس کے علاوہ ساقی فاروقی نے لندن کے پانچ شاعروں کو متعارف کرایا ہے۔ نیز فرحان جمالوی اور شاہدہ تبسم نے ہسپانیہ کی عوامی شاعری کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ مضامین کی طرح افسانوں کا حصہ بھی دامن دل کو کھینچتا ہے جس میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، مثلاً جتندر بلو، رشید امجد، آغا گل، نجم الحسن رضوی، خالد فتح محمد، محمد عاصم بٹ، علی تنہا اور دیگران اور جیفری آرچر کے افسانے کا سید ارشاد وارث کا کیا ہوا تلخیص وترجمہ۔ اسی طرح غزلوں اور نظموں کی بھی ایک لمبی قطار ہے جبکہ غزل گوئوں میں ساقی فاروقی، سرشار صدیقی، رسا چغتائی، انور سدید، مرتضیٰ برلاس، انور شعور، امجد اسلام امجد، خواجہ رضی حیدر، صابر ظفر، سلیم کوثر، ایاز محمود، حیدر قریشی، قیصر نجفی، یعقوب تصور، محسن چنگیزی، زکریا شاذ، کامی شاہ، شاہدہ تبسم اور بہت سے دوسرے شعراء شامل ہیں۔ یہی عالم حصۂ نظم کا ہے جس میں سرشار صدیقی، اسد محمد خان (ترجمہ) امجد اسلام امجد، آفتاب اقبال شمیم، خواجہ رضی حیدر، صبااکرام، اشفاق حسین، معصومہ شیرازی، محسن چنگیزی اور دیگران شامل ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے شبلی نعمانی کی فارسی غزل کا جائزہ لیا ہے جس میں شاعر کے منتخب اشعار بھی درج کیے ہیں۔ البتہ شبلی کا ایک لاجواب شعر ان کے شمار وقطار میں نہیں آسکا جو اس طرح سے ہے ؎ ضائع مساز خرقۂ مستوریٔ مرا وقتے رسد کہ باز بہ برمی کنیم ما اس مختصر کالم میں مشمولات کا تفصیلی ذکر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کا واحد مقصد یہ اطلاع دینا تھا کہ یہ رسالہ بالآخر شائع ہوگیا ہے جسے اقبال نظر اور شاہدہ تبسم نے ایڈیٹ کیا ہے اور جس کے بہت سے لوگ منتظر بھی تھے۔ ان تحریروں میں آرٹ کے لیے بھی ایک گوشتہ مخصوص ہے جس میں نسیم نشو فوز نے پوسٹ ماڈرن آرٹ پر خامہ فرسائی کی ہے۔ روایتی فلم سے ’’ڈیجیٹل پین‘‘ تک یوسف تنویر نے تحریر کیا ہے۔ ’’تاش کے کھلاڑی‘‘ کے عنوان سے عروسہ جمالوی اور ’’پینٹنگ یا فوٹو گرافر‘‘ کے عنوان سے اینا کوسٹینکو کا مضمون شامل ہے۔ اس کے علاوہ ’’درویش‘‘ کے نام سے اقبال نظر کی مزاحیہ تحریر ہے۔ تمثیل میں امجد اسلام امجد کا ’’برف میں لگی آگ‘‘ شامل ہے۔ سٹریٹ تھیٹر میں ’’بارڈر، بارڈر‘‘ کے عنوان سے شاہد محمود ندیم کی تحریر ہے اور آخر میں ایڈیٹر کے نام خطوط۔ اس نہایت اہم دستاویزکی قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے جو نہایت مناسب ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ ادبی جرائد کے حوالے سے کراچی سب سے آگے ہے۔ دنیا زاد، زیست، اجرا، اسالیب، اجمال، آج، مکالمہ، سیپ تقریباً باقاعدگی سے شائع ہورہے ہیں جبکہ ادھر فیصل آباد سے زرنگار‘ لاہور سے سویرا‘ ادب لطیف، الحمرا اور بیاض باقاعدگی سے شائع ہورہے ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کچھ ماہنامے نظر آجاتے ہیں اور اب آخر میں زکریا شاز کی غزل اور معصومہ شیرازی کی نظم: ہر کوئی جان تو نہیں ہوتا عشق آسان تو نہیں ہوتا سفرِ عشق چاہے جیسا ہو وصل سامان تو نہیں ہوتا ہونا پڑتا ہے تار تار تمام کُھلنا آسان تو نہیں ہوتا آئے اور آکے جو نہیں جائے اک تیرا دھیان تو نہیں ہوتا اب طبیعت تمہاری کیسی ہے دل پریشان تو نہیں ہوتا شاذ اس عشق کی لڑائی کا ایک میدان تو نہیں ہوتا چہرہ لڑکپن کی بانہوں میں… جھولتا حسین چہرہ!… آج تک نگاہوں میں زیر آب رہتا ہے… جس کے ہاتھ ماضی کی گونجتی حویلی کے… قفل کھول دیتے ہیں… جس کے ذکر کی برکھا…سوچ کی زمینوں پر ٹوٹ کر برستی ہے… دل کے زرد کاغذ پر سرخ روشنائی سے… اس گلاب چہرے کے خدوخال لکھتی ہوں… جیسے سرد راتوں میں… اونگھتی ہوئی کوئل… شاخچوں کی بانہوں میں … گھر تلاش کرتی ہے… جیسے پَر کٹی چڑیا… آندھیوں کے موسم میں… در تلاش کرتی ہے… آج کا مطلع غیر مانوس، نئی، اور طرف سے آتا میں تری سمت کسی اور طرف سے آتا