جلد عوام میں آکر سیاست کروں گا …زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’جلد عوام میں آکر سیاست کروں گا ‘‘ کیونکہ گزشتہ پانچ سال تو سابق وزرائے اعظم، اور دیگر شرفاکو اس کارخیر پر لگائے رکھا جنہوں نے اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا، بلکہ اپنے ساتھ بھی خاطرخواہ انصاف روارکھا جوان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی کافی ہے، اگرچہ اس کا ثواب مجھے بھی برابر پہنچتا رہا، تاہم اب مجھ اکیلے کی باری ہے جس سے سرخرو ہونے کی کافی امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’صدارتی ذمہ داریوں کی وجہ سے 5سال عوام سے دور رہا ‘‘ لیکن اب یہ دوری ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اس لیے عوام خبردار رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں جمہوری عمل مضبوط ہوچکا ‘‘ اگرچہ اہل جمہور خود کچھ زیادہ ہی مضبوط ہوئے ہیں اور ہم اسی کو جمہوری عمل کی مضبوطی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’صدارتی انتخاب میں بدمزگی بھی پیدا ہوئی ‘‘ اور اگر ہماری جماعت اس کا بائیکاٹ نہ کرتی تو اس کا سارا مزہ ہی کرکرا ہوجاتا، ویسے بھی ہم نے میاں رضا ربانی کو ہارنے ہی کے لیے کھڑا کیا تھا۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ ممنون حسین کو صدر بننے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں …نواز شریف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’جناب ممنون حسین کو صدر بننے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ‘‘ اور امید ہے کہ وہ حلف اٹھانے کے بعد سرگرمیاںجلدازجلد شروع کردیں گے جبکہ سید غوث علی شاہ اور ظفر اقبال جھگڑا کی نامزدگی اس لیے نہیں کی جاسکی تھی کیونکہ وہ مقویات کی تیاری کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے، البتہ اگر وہ ان حضرات کو اس دوران اس فن میں طاق کردیں تو آئندہ انہیں بھی موقعہ مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بلوچستان کے عوام کے مسائل حل کریں گے ‘‘ جس کے لیے فالتو توانائی اور طاقت کی ضرورت ہے جس کی خاطر ممنون حسین صاحب کو یہ زحمت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم کسی سے محاذ آرائی نہیں چاہتے ‘‘ تاکہ اقتدار کے فیوض وبرکات میں کسی قسم کی کوئی رخنہ اندازی نہ ہوسکے اور جس کے لیے ہم سارا وقت بچا کر رکھنا چاہتے ہیں کہ یہ موقعہ خدا خدا کرکے ہی آیا ہے، ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں نومنتخب صدر سے ملاقات کررہے تھے۔ انتقالِ اقتدار کے حوالے سے ڈر لگتا تھا …چیف الیکشن کمشنر چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے کہا ہے کہ ’’انتقال اقتدار کے حوالے سے ڈرلگتا تھا ‘‘ کیونکہ جس انداز میں انتخابات منعقد ہوئے تھے اس سے شدید خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں رائے دہندگان ہمارے گلے ہی نہ پڑ جائیں لیکن وہ اس کی بجائے دھرنوں وغیرہ میں مشغول ہوگئے جس پر ہم جناب عمران خان کے ذاتی اور دلی طورپر ممنون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ووٹ رضاکارانہ عمل ہے، اور جن کا ووٹ نہیں بھی ہوتا یا جو ایک بار ووٹ ڈال چکے ہوں وہ بھی اس رضاکارانہ حق کو استعمال کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس کی ہمت رکھتے ہوں اور انہیں پولنگ سٹاف کی خوشنودی طبع بھی حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوگوں نے حکومت کو گڈ گورننس کے لیے اقتدار پر بٹھایا ہے ‘‘ اگرچہ اس میں لوگوں کی نسبت ہماری مساعی جمیلہ کا حصہ کچھ زیادہ ہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی کو بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘ اور جو کچھ ہوا تھا اسے رضائے الٰہی سمجھ کر شکرادا کرنا اور صبر کرنا چاہیے تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان کررہے تھے۔ نیرنگ خیال یہ ماہنامہ راولپنڈی سے ہمارے دوست اور شاعر سلطان رشک عرصۂ دراز سے نکال رہے ہیں۔ اس کے تازہ شمارے میں سے قارئین کی تواضع طبع کے لیے کچھ اشعار: زاہدہ عابد حناؔ خواب ہی اور تھے، رتجگا اور تھا چشم بے خواب کا واقعہ اور تھا کھاگئے جو ہمیں روگ تھے اور ہی جو بتاتے رہے، مسئلہ اور تھا میرے ہاتھوں میں بھی کچھ لکیریں نہ تھیں تیری قسمت کا بھی زائچہ اور تھا سنگ تہمت برستے رہے بارہا وہ جو ٹوٹا نہیں آئینہ اور تھا وہ جو ثابت ہوا، اس سے قطع نظر جو سنایا گیا فیصلہ اور تھا نسیم سحر مرے سفر میں عجب امتحان آگیا تھا کہ راستے میں نیا آسمان آگیا تھا تمام عمر نہ وہ فاصلہ عبور ہوا جومیرے اور ترے درمیان آگیا تھا عجیب قافلہ تھا، ہمسفر انوکھے تھے بچھڑ گیا وہی جس کا مکان آگیا تھا میں جا رہا تھا ستاروں کی رہگزر کی طرف ٹھہر گیا کہ مرا خاکدان آگیا تھا آج کا مقطع ایک ٹوٹا ہوا سا تارِ تعلق ہے ، ظفرؔ گھر کے سارے سروسامان سے ملتا جلتا