’’صحیفہ ‘‘ مجلس ترقی ٔادب کا جریدہ ہے جو اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر تحسین فراقی کی زیرادارت شائع ہوتا ہے جبکہ مجلس ادارت میں افضل حق قریشی، ذوالفقار تابش اور خالد سلیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مجلس مشاورت میں حضرات انتظار حسین، ڈاکٹر خورشید رضوی، محمد سلیم الرحمن، امجد اسلام امجد ،عطاء الحق قاسمی ، ڈاکٹر رئوف پاریکھ ، افتخار عارف اور ڈاکٹر نجیبہ عارف کے اسمائے گرامی درج ہیں۔ اس کا یہ شمارہ 201تا 203ہے جو اپریل 2010ء تا دسمبر 2010ء کی نمائندگی کرتا ہے یعنی پورے تین سال کی تاخیر سے شائع ہوا ہے۔ یہ خالصتاً ایک علمی اور تحقیقی جریدہ ہے جو اس کے مشمولہ مضامین سے بھی ظاہر ہوتا ہے‘ اور جو اس طرح سے ہیں : اسلام میں مابعدالطبیعیاتی فکر کی بنیادی وضع، ترجمہ از محمد عمر میمن، مولانا غلام رسول مہر کی سیرتِ سید احمد شہید اور سرگزشت مجاہدین کی داستان تصنیف، ازحمزہ فاروقی ، سترہویں صدی میں انگلستان جانے والی پہلی ہندوستانی خاتون از نجیبہ عارف ، سید حبیب کے خودنوشت حالات ازافضل حق قریشی‘ کلاسیکی اردو شاعری کے انگریزی تراجم، تنقیدی جائزہ ازمحمد کامران، میر شناسی کے ابتدائی نقوش از نذر عباس، قرہ العین حیدر کے ناولوں میں وجودیاتی مابعدالطبیعیاتی عناصر، ازراحیلہ لطیف، اردو ڈرامے میں طربیہ عناصر ازنورین رزاق اور 11/9اور پاکستانی اردو افسانہ ازامجد طفیل۔ مدیر نے ابتدائیے میں یہ خوشخبری دی ہے کہ اس کی اشاعت کو باقاعدہ کیا جارہا ہے۔ نیز صحیفہ کے شبلی اور حالی نمبروں کی اشاعت کا ارادہ بھی ظاہر کیا گیا ہے اور علمی، فکری ، تہذیبی اور ثقافتی موضوعات پر اہل قلم سے ان کو اپنی نگارشات بھجوانے کی درخواست کی گئی ہے۔ 156صفحات پر محیط اس رسالے کی قیمت 150روپے رکھی گئی ہے۔ سید عابد علی عابد (مرحوم) کے وقت اس جریدے کی شکل وصورت اور تھی، یعنی اس میں دوسرے رسالوں کی طرح شاعری، افسانے اور مزاحیہ مضامین وغیرہ بھی چھپتے تھے۔ رسالے کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے ایک گرامی نامہ بھی ارسال کیا ہے ، قارئین کی دلچسپی کے لیے جس کا حسب ذیل متن بھی پیش ہے: 29جولائی 2013ء قبلہ ظفر اقبال صاحب! سلام مسنون ! آج بیٹھے بیٹھے اچانک طبیعت جو مچلی، ازراہ تفنن ایک بے مطلع غزل کہہ ڈالی۔ قافیہ سخت تھا، ناچار آپ کی روش اختیار کی اور آپ ہی سے منسوب کردی! (ویسے آپ کی روش اختیار کرنا کون سا آسان ہے ) (نذرِ ظفر اقبال) ہونی ہے تباہی جو بھی ہو جائے پٹڑی سے لہہ گئے ہیں ہم بھی تو نے ہی مبارزت سکھائی اک دیو سے کھہہ گئے ہیں ہم بھی جو وار کبھی نہیں سہا تھا اس وار کو سہہ گئے ہیں ہم بھی بے مہریٔ سیل بے اماں کو تبریک ہو، ڈھیہہ گئے ہیں ہم بھی کب تک موج بلا سے لڑتے تھک ہار کے بہہ گئے ہیں ہم بھی سالار بھی کارواں سے پیچھے بے قافلہ رہ گئے ہیں ہم بھی اب چھان پھٹک کا مرحلہ ہے مدت ہوئی گہہ گئے ہیں ہم بھی جیسی تو نے غزل کہی ہے اک ویسی ہی کہہ گئے ہیں ہم بھی (اہل دہلی ڈھینا ’’ے‘‘ سے لکھتے ہیں۔ میں نے لکھنو کے ارباب شعر کی پیروی کی، ’’ڈھیہنا‘‘) اچھی خاصی غزل تھی جسے ڈاکٹر صاحب نے خواہ مخواہ تفنن کے کھاتے میں ڈال دیا۔ میں تو ایک جگہ لکھ بھی چکا ہوں کہ غزل کے شعر میں کوئی نہ کوئی شرارت ضرور ہونی چاہیے۔ صاحب موصوف نے قافیے کی تنگی کی بناء پر مطلع نہیں کہا تھا لیکن میں نے ان کی غزل مکمل کردی ہے ، مطلع ملاحظہ ہو لب تشنۂ تہہ گئے ہیں ہم بھی پاکر تری شہہ گئے ہیں ہم بھی پھر، آپ نے بہہ کا قافیہ پنجابی میں باندھا ہے حالانکہ اس کا حق تھا کہ اردو میں بھی باندھا جاتا، چنانچہ مطلع ثانی بھی ہوگیا گرداب میں چھیہہ گئے ہیں ہم بھی کس موج میں بہہ گئے ہیں ہم بھی (چھیہہ جانا یعنی دبک جانا) اساتذہ نے مہ کو میہہ اور گہ کو گیہہ کے وزن پر بھی باندھا ہے، مثلاً گاہ بے گاکو گہ بے گہ اور پھر گیہہ بے گیہہ سو مطلع ثالث عرض ہے وابستۂ مہ گئے ہیں ہم بھی اور‘ گیہہ بے گیہہ گئے ہیں ہم بھی بس یوں سمجھیے کہ مجھ سے یہ اشعار سرزد ہوگئے ہیں، یعنی گاہ باشد کہ پیرِ دانشمند بر نہ آید درست تدبیرے گاہ باشد کہ کودک ناداں از غلط بر ہدف زند تیرے غزل میری نذر کرنے پر ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں کہ گُل بدست توازشاخ تازہ ترماند۔ آج کا مطلع ہم اپنے پاس بیٹھیں یا تمہارے ساتھ جائیں یہ وہ دریا نہیں جس کے کنارے ساتھ جائیں