میں سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑا ہوں …شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’مصیبت کی اس گھڑی میں سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑا ہوں ‘‘ اگرچہ فرق صرف یہ ہے کہ وہ پانی میں کھڑے ہیں اور میں خشکی پر، کیونکہ اگر میں بھی پانی میں کھڑا ہوجائوں تو ان کی مدد کیسے کروں گا بلکہ شاید انہیں میری مدد کرنے کی ضرورت پڑ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ان کی مکمل بحالی تک چین سے نہیں بیٹھوں گا‘‘ اور، انشاء اللہ اسی طرح کھڑا ہی رہوں گا، اگرچہ میں کوئی بگلا بھگت نہیں ہوں کہ ایک ٹانگ پر بھی کھڑا رہ سکوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’امداد اور بحالی میں غفلت برداشت نہیں کی جائے گی ‘‘ جس طرح ہم بجلی چوروں کو برداشت نہیں کررہے، البتہ پولیس والے ان کے چالانوں کے ساتھ جو ثبوت نتھی نہیں کررہے، انہیں بھی برداشت نہیں کیا جائے گا اور اسی طرح بیان دے دے کر انہیں شرمندہ کیا جاتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’سیلاب متاثرین اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں‘‘ کیونکہ ان کے ساتھ ان کے بال بچے بھی شامل ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں کمشنرز اور انتظامیہ کو ہدایات جاری کررہے تھے۔ طالبان سے اپنی ضمانت پر مذاکرات نہیں کرسکتا …فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے اپنی ضمانت پر مذاکرات نہیں کرسکتا‘‘ کیونکہ مذاکرات کے لیے بھی کسی ٹھیک ٹھاک عہدے کی ضرورت ہوتی ہے جو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین نہ سہی، کم ازکم وفاقی وزیر تو ہو لیکن حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی چنانچہ اب آپ ہی بتائیے کہ میں یہ مذاکرات کیسے کرسکتا ہوں اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت یہ مذاکرات کرانا ہی نہیں چاہتی ورنہ حکومت کی ایک جنبش قلم یعنی ایک نوٹیفکیشن جاری کرنے سے ہی سارا مسئلہ حل ہوجاتااور اب تک یہ مذاکرات ہوبھی چکے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان اور بھارت کو تنائو میں کمی کے لیے کوشش کرنی چاہیے ‘‘ جس کی کچھ زیادہ امید نہیں ہے کیونکہ اگر اب تک میری ترجیحات کے حوالے سے کوئی کوشش نہیں کی جاسکی جوکہ ایک بالکل معمولی کام تھا تو اتنے بڑے مسئلے پر حکومت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے جواب تک لارا لپا پر ہی گزر اوقات کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بھارتی میڈیا کا جنگجویانہ کردار صورت حال کو مزید خراب کررہا ہے ‘‘ حالانکہ میرے معاملے کی وجہ سے یہ ماحول پہلے ہی کچھ اتنا اچھا نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دینے پر غور نہیں ہورہا …اسحٰق ڈار وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ’’بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے پر غور نہیں کررہا ‘‘ کیونکہ ایسے معاملات پر غورکرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور یہ خود بخود ہی ہوجایا کرتے ہیں، تاہم لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے بھارت کو انتظار کرلینا چاہیے تھا اور یہ سارا کچھ پسندیدہ ملک کا درجہ حاصل کرنے کے بعد کرنا چاہیے تھا لیکن آخر بھارت سارے کام مجھ سے پوچھ کر تو نہیں کرتا جبکہ جلدبازی کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’آل پارٹیز کانفرنس عمران خان کی وجہ سے ملتوی ہوئی تھی ‘‘ البتہ اس کے بعد جو ملتوی ہوتی رہی ہے اس کے ذمہ دار کا سراغ لگانے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی گئی تھی جس کا یہی خیال ہے کہ کوئی اور سیاستدان دستیاب نہیں ہورہا‘ اس لیے اس کا ذمہ دار بھی عمران خان ہی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’وزیر داخلہ اے پی سی کے انعقاد پر ہوم ورک کررہے ہیں‘‘ لیکن چونکہ انہوں نے طالب علمی کے زمانے میں بھی کبھی ہوم ورک نہیں کیا تھا اس لیے ناتجربہ کاری کی وجہ سے انہیں اس میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کررہے تھے۔ سمندر پارپاکستانیوں کا وطن سے عشق لازوال ہے …چودھری سرور گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ ’’سمندر پار پاکستانیوں کاوطن سے عشق لازوال ہے‘‘ کیونکہ ان میں سے کسی کو بھی کسی وقت یہاں گورنر وغیرہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ مثلاً گورنری وغیرہ کے اہل سارے پاکستانی سمندر پار شفٹ کرچکے ہیں، اس لیے میں ہرسمندر پار پاکستانی کو تاکید کروں گا کہ جب بھی پاکستان کا کوئی اہم لیڈر وہاں کا دورہ کرے تو اس کی جی بھر کر خدمت کریں تاکہ کسی وقت بھی ان کے لیے گورنری وغیرہ کا چانس نکل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں تمام مسائل کی جڑ ناخواندگی ہے‘‘ اس لیے میں گورنر ہائوس میں چند بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کا پروگرام بنارہا ہوں کیونکہ اسی طرح قطرہ قطرہ جمع ہونے سے دریا بنتا ہے جس میں سے مچھلیاں پکڑی جاسکتی ہیں اور کبھی کبھی سیلاب بھی آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں 70لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں ‘‘ اور اگر عشرت العباد صاحب کی طرح میری گورنری بھی مستقل کردی جائے تو میں اپنے پروگرام کے تحت اس میں خاصی کمی لاسکتا ہوں جس کے لیے مجھے پورا موقعہ دیا جانا ضروری ہے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں اٹلی سے آئے ہوئے ایک وفد سے ملاقات کررہے تھے۔ سارے ملک پر صرف 5کا ٹولہ حکمران ہے …شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ’’پورے ملک پر صرف 5کا ٹولہ حکمران ہے ‘‘ اور اگر اس میں ایک کا اضافہ کرکے یہ ٹولہ 6کا بنالیا جاتا تو کونسی قیامت آجاتی جبکہ اس خاکسار میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے لیکن بارہا کوشش کرنے کے بعد میاں صاحب نے انتخابات سے پہلے بھی کبھی ملاقات کا وقت نہیں دیا کیونکہ شاید ان کے پاس گھڑی ہے ہی نہیں، جو میں بھی انہیں پیش کرسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسحٰق ڈار کو تبدیل کیا جائے ‘‘ بلکہ اس کے علاوہ بھی میں بہت مفید تجاویز اور تیربہدف نسخے حکومت کو پیش کرسکتا ہوں کیونکہ ملک اور قوم کی خدمت جس طریقے سے بھی ہو، کرلینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکمرانوں کے 70دنوں میں سے ہفتے۔ اتوار نکال کر باقی سارے دن باہر گزرے ‘‘ حالانکہ باہر کے سارے کام میں بھی سرانجام دے سکتا ہوں لیکن یہ عاقبت نااندیش مجھے ملک وقوم سے سرخرو ہونے کا موقعہ دینے کے لیے تیار ہی نہیں، اس لیے میں کیا کرسکتا ہوں اور لگتا ہے کہ اسی طرح پڑے پڑے ضائع ہوجائوں گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ آج کا مطلع یہ فرد جرم ہے مجھ پر کہ اس سے پیار کرتا ہوں میں اس الزام سے فی الحال تو انکار کرتا ہوں