عدالتوں کی دھمکیاں دے کر ہمیں مرعوب نہ کیا جائے: فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ’’عدالتوں کی دھمکیاں دے کر ہمیں مرعوب نہ کیا جائے‘‘ کیونکہ ہم پر تو اب حکومتی دھمکیوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اور، اگر وہ ہماری ترجیحات پر عمل نہیں کرتی تو ہم اسے دھمکی ہی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم خود رعب ڈالنے والے ہیں‘‘ جس میں فی الحال حکومت شامل نہیں ہے کیونکہ صبر کا پیمانہ پوری طرح لبریز ہونے تک ہم انتظار کریں گے اور یہ تو ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کوئی حکومت ہمارے بغیر بن سکتی ہے نہ چل سکتی ہے اور اگرچہ بیشک موجودہ حکومت ہمارے بغیر بن تو گئی ہے لیکن چل نہیں سکتی کیونکہ ہم اسے کافی حد تک خوفزدہ کر چکے ہیں۔ اگرچہ یہ ہمارا خیال ہی ہے حالانکہ حکومت کو اخلاقاً بھی خوفزدہ ہوجانا چاہیے تھا۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ ملک مہنگائی کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے: عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’ملک مہنگائی کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے‘‘ اور صرف ایک چھوٹا سا جزیرہ بچا ہے جس پر کھڑا ہو کر میں یہ بیان دے رہا ہوں بلکہ بعض اوقات تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ سمندر نہیں بلکہ سیلاب کا پانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپشن ختم کیے بغیر ملک نہیں بچ سکتا‘‘ اور چونکہ کرپشن راتوں رات ختم نہیں کی جاسکتی اس لیے راتوں رات ملک کو بھی نہیں بچایا جاسکتا، تاہم اگر وزیراعلیٰ پرویز خٹک کوشش کریں تو وہ اسے اپنے زور بازو سے ختم کرکے دکھا سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ میری ہدایت کے باوجود دوسرا عہدہ نہیں چھوڑ سکتے تو کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’الیکشن میں امپائرنگ ٹھیک نہیں ہوئی‘‘ اور کئی جگہوں پر ہمیں ایل بی ڈبلیو کر دیا گیا اور اب ہمیں ریویو بھی نہیں کرنے دیا جارہا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ تجربہ کار ہوں، راولپنڈی میں ایک قاتل کو پکڑا تھا: زمرد خان اسلام آباد تماشا فیم زمرد خان نے کہا ہے کہ ’’تجربہ کار ہوں، راولپنڈی میں ایک قاتل پکڑا تھا‘‘ کیونکہ میں اس کے اوپر گر گیا تھا اور وہ میرے وزن ہی کی وجہ سے لاچار ہوگیا تھا، اس طرح میں نے سکندر پر بھی گرنے کی کوشش کی لیکن وہ کم بخت پھرتی سے پیچھے ہٹ گیا اور میں خود زمین پر گر پڑا حالانکہ زمین کو گرفتار کرنا میرے پروگرام میں شامل نہیں تھا اور میرا خیال تھا کہ یہ بٹیرا بھی میرے پائوں کے نیچے آ کر بے بس ہوجائے گا حالانکہ گرنے کے بعد میں نے اس کا پائوں بھی پکڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اس منت کا بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ جان بچانا سب کا فرض ہے ورنہ وہ میرے بوجھ تلے دب کر ہی اللہ کو پیار ہوسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے جرأت دکھائی یا حماقت کی، اس کا فیصلہ قوم کرے گی۔‘‘ اگرچہ یہ قوم کافی احسان فراموش ہوچکی ہے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ تین صوبوں کے برعکس سندھ کے عوام عذاب بھگت رہے ہیں: ممتاز بھٹو مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو نے کہا ہے کہ ’’تین صوبوں کے برعکس سندھ کے عوام عذاب بھگت رہے ہیں‘‘ کیونکہ ن لیگ میں شمولیت کے باوجود مجھے بری طرح نظرانداز کردیا گیا ہے جبکہ سندھ کے گورنر بھی اسی طرح موجیں کررہے ہیں جن کی جگہ خاکسار کو خدمت کرنے کا ایک مبہم سا وعدہ کیا گیا تھا۔ میرے ساتھ بھی بزگوار مولانا فضل الرحمن جیسا ہی سلوک کیا جارہا ہے اور یہ خاکسار اسی طرح بے نیلِ مرام پھر رہا ہے لہٰذا سندھ کے عوام کے لیے اس سے بڑا عذاب اور کیا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب کا حافظہ بہت کمزور ہوچکا ہے‘ اس لیے میں ان کے لیے کافی سارے بادام پہلی فرصت میں بھجوا رہا ہوں تاکہ انہیں یاد آجائے کہ کس قدر ضروری کام انہوں نے فراموش کر رکھے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے اور اب آخر میں ایک مزید خانہ پری: گھونسلے، شاخیں، ثمر، سارا شجر پانی میں ہے کیا وضاحت ہو کہ کیا کچھ سربسر پانی میں ہے سر پہ تھا ساماں کہ پھر بارش نے آ گھیرا ہمیں جو نکالا تھا ابھی، بارِ دگر پانی میں ہے طعنہ دیتا تھا کبھی خانہ بدوشی کے ہمیں آج اس بے مہر کا اپنا بھی گھر پانی میں ہے ہر کوئی باراں گزیدہ ہے، جہاں بھی، جو بھی ہو یہ ادھر بوچھار میں ہے، وہ ادھر پانی میں ہے جو جہاں موجود ہے اس کو غنیمت جان لو جو کہیں گم ہوگیا اس کی خبر پانی میں ہے ایک ہی صف میں ہیں، کس کا ہو بیاں، کس کا نہ ہو معتبر پانی میں ہے، نا معتبر پانی میں ہے اور کیا مذکور ہو، اتنا سمجھ لیجے، اگر زندگی ہے اک سفر، رخت سفر پانی میں ہے اس کا ہی کچھ بچ رہا ہو ڈوبنے سے دیکھنا کیا کہیں، اپنا تو سب عیب و ہنر پانی میں ہے آزما لے وہ ہمارے حوصلے بے شک، ظفرؔ دیکھنا ہے آپ بھی وہ کس قدر پانی میں ہے آج کا مطلع ملوں اس سے تو ملنے کی نشانی مانگ لیتا ہوں تکلّف برطرف، پیاسا ہوں، پانی مانگ لیتا ہوں