نے عقل کی گھاٹی سے نہ تقدیر سے پہنچا اس اوج پہ میں اسم کی تاثیر سے پہنچا شہتوت کا رس تھا نہ غزالوں کے پَرے تھے اس بار بھی میں جشن میں تاخیر سے پہنچا کیا رات تھی بدلے گئے جب نام ہمارے پھر صبح کو خیمے تھے نہ خدام ہمارے تیغ کی دھار میں الحمرا موتی کی دھار میں الحمرا اک محراب میں سورج ہے اور اک محراب میں الحمرا بریدہ گیسوئوں میں آنکھ کا رستہ نہیں تھا وہ چہرہ خوبصورت تھا مگر دیکھا نہیں تھا بلاتے تھے ہمیں انجیر اور زیتون کے پھل مگر وادی میں جانے کا کوئی رستہ نہیں تھا یہاں سے پہلے تو کچھ بے نوا ہجرت کریں گے پھر اک دن سب پرندے دیکھنا ہجرت کریں گے کوئی زاری سنی نہیں جاتی کوئی جرم معاف نہیں ہوتا اس دھرتی پر اس چھت کے تلے کوئی تیرے خلاف نہیں ہوتا ملنا تو ہے اس سے مجھے ہرحال میں اظہارؔ لیکن یہ ملاقات میں تاخیر عجب ہے رات اور طوفان ابر و باد میرے ہر طرف اور لو دیتی ہوئی اک مشعل رخسار ہے دریچہ کیسا کہ دیوار باد و آب ہے یہ نہ دیجیے کوئی آواز شہر خواب ہے یہ کس کی تصویر تھی ہرنقش نے چہرے پہ زرافشانی کی کس کی آواز تھی دریائوں میں رفتار گھٹی پانی کی وہ گھاس اُگی ہے کہ کتبے بھی چھپ گئے اظہارؔ نہ جانے آرزوئیں ہم نے دفن کی ہیں کہاں ازل ابد کی حدوں سے آگے سنائی دے گی مرے پروں کی صدا ترے سبز گنبدوں سے یہ ریشم‘ یہ لباسِ حکمرانی جل اٹھے گا وہ ظلمت ہے کہ اب اک روز پانی جل اٹھے گا کہیں سے یک لخت زندگی میری کاٹ دے گا یہ راستہ اختیار میں نے نہیں کیا تھا فضا میں شمشیر ایک لمحہ دکھائی دے گی مگر لہو میں مزا بہت دیر تک رہے گا وہیں تھا ایک پتھر جس پہ تفصیلِ سفر تھی یہ رستہ سہل یا دشوار جو بھی تھا، وہیں تھا ہماری سرحدوں کا تم تعین کیا کرو گے ہمارا اہلِ ظاہر سے کوئی جھگڑا نہیں ہے نجات کے لیے روز سیاہ مانگتی ہے زمین، اہلِ زمیں سے پناہ مانگتی ہے یہاں کچھ فرق حسرت اور تمنا میں نہیں ہے کڑکتی دھوپ تھی بادل کے ٹکڑے ہاتھ میں تھے دیا جلا تھا لیکن قبر پہ رکھے جانے کی خاطر پھول کھلے تھے لیکن بند کتابوں میں رہنے کے لیے میں زندگی اور بخت پانی سے ڈھالتا ہوں کبھی سفینے کبھی جواہر اچھالتا ہوں سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا دریچہ کھل رہا تھا خواب میں، دیوار کر ڈالا ثمر بہشت کے تھے حسن ترکمانوں کا خوش آرہا تھا مزہ دوسرے جہانوں کا زمیں کو علم نہیں کس طرف رواں ہوں میں حساب سر پہ لیے سات آسمانوں کا پلٹیں گے شام کو ستارے مزدور ہیں، صبح کے گئے ہیں کیا تخت تھا پانی پہ بچھا تھا مری خاطر کیا زلف تھی، کیا زلف کشا اس کی ہوا تھی زمیں والوں سے شاید صلح کرنا چاہتے ہیں فرشتے آسمانوں سے اترنا چاہتے ہیں آسماں پر بہت ستارے ہیں میں اگر ٹوٹ بھی گیا تو کیا ستارہ گھوڑے کی آنکھ اور چاند نعل ہوگا سفر میں چاندی کی دُھول سونے کی زین ہوگی بنیں یہ انگلیاں رنگت ابد کی کوئی ایسا ہنر اے غیب کے ہاتھ یہ کیسی دھوپ اور پانی میں افزائش ہوئی ہے بہشتی ٹہنیاں اس اوڑھنی سے جھانکتی ہیں مقید ہوں میں کالی کوٹھڑی میں مہیا کر ثمر اے غیب کے ہاتھ مرے ستارے ترے آسمان کیسے ہیں تری جبیں پہ یہ کالے نشان کیسے ہیں سب زیتون کے باغ اس کے سارے شہروں میں چراغ اس کے ہاتھ سمندر کی نبضوں پر پائوں رکاب میں الحمرا وصال و ہجر کے سب مرحلے ناگفتنی ہیں فقط عشاق کے جسموں کے پنجر دیدنی ہیں فرشتوں نے جھاڑے تھے پر اس فضا میں کئی سال پہلے سروں پر مگر ایک شے اب بھی خاکستری اڑ رہی ہے اور، اب میرا بیٹا اسے ڈھونڈنے گھر سے نکلا ہوا ہے کہانی میں اظہارؔ ابھی تک اڑن طشتری اڑ رہی ہے لہوکی چمک نے مجھے اس کا چہرہ دکھایا وگرنہ اندھیرے میں وار اس نے آکر کیا ہے آج کا مطلع سینۂ دشت سے اک چشمہ ابلتا ہوا ہے سطح دریا پہ کوئی شعلہ مچلتا ہوا ہے