عزت سے رخصت ہورہا ہوں کوئی پچھتاوا نہیں:زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’عزت سے رخصت ہورہا ہوں، کوئی پچھتاوا نہیں‘‘ کیونکہ جو عزت دونوں وزرائے اعظم اور بعض دیگر رفقا کی بے مثال کارگزاری سے حاصل ہوئی میرے لیے اس کی سرشاری ہی کافی ہے جبکہ ملک کے اہم ترین اداروں میں سے سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے اور دیگر قیمتی اثاثوں کے دیوالیہ ہونے پر بھی کوئی پچھتاوا نہیں ہے کیونکہ ان کی قسمت میں ہی ایسا لکھا تھا اور کوئی قسمت کے لکھے کو ہر گز نہیں ٹال سکتا جبکہ خزانہ بھی اپنی بدنصیبی ہی کی وجہ سے خالی ہوا تو اس کا بھی کوئی غم نہیں کیونکہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے اور یہ میل دور کرنے کے لیے ہاتھ صاف کرتے رہنا چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرا ضمیر مطمئن ہے‘‘ اور اسے مطمئن کرنے کی خاطر ہی دبئی کے دورے بھی کرتا رہا ہوں جن کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے جو کہ مجبوراً سرکاری خرچے پر کرنا پڑے کیونکہ صدر کا ذاتی کاروبار بھی سرکاری ہی سمجھا جاتا ہے نیز ضمیر کا اطمینان بھی سرکاری فرائض ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ابتدائی ایام ہی میں کہہ دیا تھا کہ ہم تاریخ بنانے نکلے ہیں‘‘ لیکن شکر ہے کہ تاریخ ہی بنی، کہیں نیا جغرافیہ نہیں بن گیا ،چنانچہ امید ہے کہ ہماری بنائی ہوئی تاریخ کو نصاب میں شامل کر لیا جائے گا اور اگر کچھ تاریخ بننے سے رہ بھی گئی ہو تو اس کی تکمیل موجودہ حکومت کردے گی کیونکہ ماشا اللہ اس کا ایجنڈا بھی یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’گزشتہ پانچ برسوں میں ہم نے جمہوریت کی طرف سفر جاری رکھا اور اسے مضبوط کیا‘‘ اگرچہ اس سفر میں کچھ ساتھی بہت آگے نکل گئے اور اگر حکومت کی میعاد پوری نہ ہوجاتی تو یہ اور بھی آگے نکل چکے ہوتے اور جمہوریت کہیں پیچھے رہ گئی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ’’ اس سارے عمل سے پاکستان کی جیت ہوئی ہے‘‘ اگرچہ ہمارے عزائم ذرا مختلف تھے، تاہم یہ بھی ہمارا خیال ہی ہے کہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے کیونکہ دراصل تو یہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہی پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے کسی بات کا کوئی افسوس نہیں‘‘ حتیٰ کہ ملک کی اس حالت کا بھی نہیں جو گزشتہ پانچ برسوں میں ہوچکی ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے:نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’دہشت گردی کا خاتمہ کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے‘‘ بلکہ اب یہ دہشت گردوں ہی کے اختیار میں ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے دیں یا پیچھے رکھیں کیونکہ یہ لوگ ایک حقیقت ہیں اور حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں جبکہ آنکھیں چُرانا تو درکنار ہم تو کسی چوری کو بھی پسند نہیں کرتے، خواہ وہ الیکشن کی چوری ہی کیوں نہ ہو جس میں ہر گز ہمارا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’امن اور ترقی ہمارا ایجنڈا ہے‘‘ جبکہ امن کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ ترقی کا کافی چانس موجود ہے جس کے لیے ہمارے بعض ساتھیوں نے سر توڑ کوششیں شروع کردی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم افغانستان کی مدد کریں گے‘‘ اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ ہماری مدد کون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’دونوں ملکوں کے عوام کو محفوظ مستقبل ملنا چاہیے‘‘ جس کے لیے اخبارات میں اشتہار دے رہے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہے واپس آجائے اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ہیں جی؟ آپ اگلے روز افغان صدر سے ملاقات کررہے تھے۔ طالبان مذاکرات کے موضوع پر حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں:فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات کے موضوع پر حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں‘‘ جس طرح ہم اور حکومت بھی ایک پیج پر نہیں لیکن اب کچھ امید لگی ہے اور اکرم درانی صاحب کو وفاقی کابینہ کا رکن بنائے جانے پر حکومت کے غور سے کچھ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ دونوں کے ایک پیج پر آنے کا امکان ماشا اللہ پیدا ہورہا ہے۔ تاہم اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے علاوہ کچھ مزید پیشرفت بھی کی جائے تاکہ دونوں مکمل طور پر ایک پیج پر آسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’طالبان اور حکومت کے درمیان ثالثی کرنے کو تیار ہوں‘‘ بشرطیکہ ہماری ترجیحات کو حکومت بھی اپنی ترجیحات سمجھے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کو ترجیح دینی چاہیے جس کے لیے ہم اپنی تیار کردہ فہرست پیش کرنے کے لیے تیار ہیں کہ مذاکرات کے علاوہ بھی حکومت کو کس کس بات کو ترجیح دینا چاہیے کیونکہ میں نے صوبائی حکومت کو فی الحال نظر انداز کر رکھا ہے اور دیگر مفید کاموں میں لگا ہوا ہوں۔ اگلے روز اسلام آباد میں اپنے ترجمان جان اچکزئی کے ذریعے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ مفاہمت؟ ایک اخباری اطلاع کے مطابق وزارت قانون نے لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے کے لیے نیب کو دبئی کے ساتھ رابطے سے روک دیا ہے اور جس سے رقم کی واپسی کا معاملہ لٹک گیا ہے۔ اگر یہ دونوں رپورٹس صحیح ہیں تو اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انتخابات سے پہلے لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے دعوے اور اب اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی حکومتی کوششوں پر کسی کو بھی حیرت نہیں ہوگی جبکہ حکومت اور پیپلزپارٹی مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں اور ایسی کوئی بھی کارروائی حکومت کے ایجنڈے یا ترجیحات میں شامل نہیں ہوسکتی۔ ایک پنجابی محاورے کے مطابق بھینسیں، بھنسیوں کی بہنیں ہوتی ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملک کی یہ دونوں بڑی پارٹیاں ایک دوسری کے خلاف یا ایک دوسرے کی حریف ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے کیونکہ یہ ایک دوسری کی حریف صرف باریاں لینے کی حد تک ہیں تاکہ اپنی اپنی باری آنے پر ملکی وسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کر سکیں، چنانچہ اس بار پیپلزپارٹی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ آج کا مطلع ویراں تھی رات‘ چاند کا پتھر سیاہ تھا یا پردۂ نگاہ سراسر سیاہ تھا