پیپلزپارٹی اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گی …زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’پیپلزپارٹی اپنا کھویا ہوا مقام جلد حاصل کرلے گی‘‘ کیونکہ جن معززین کی کارکردگی کی وجہ سے یہ مقام کھویا ہے انہی کی بدولت وہ اسے حاصل بھی کرے گی جبکہ سابق وزرائے اعظم، دیگر ساتھیوں اور خاکسار سمیت یہ کارنامہ بھی سرانجام دینے میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے‘‘ اور چونکہ یاران تیز گام خود بھی کافی مضبوط ہوگئے ہیں اس لیے اسی سے جمہوریت کی مضبوطی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت کی بہتری کے لیے اور دہشت گردی کے خاتمہ کی خاطر موجودہ حکومت سے تعاون کریں گے ‘‘ تاکہ کل کو یہ خاکسار کے ساتھ بھی تعاون کرے جس کی بعدازرخصتی سخت ضرورت پڑنے والی ہے جیسا کہ دونوں فریقوں کے مابین ایسے معاملات حتمی طورپر طے پاچکے ہیں کہ مفاہمت کا یہ تسلسل قائم رکھا جائے۔ آپ اگلے روز سانگھڑ کے دورہ کے موقعہ پر مختلف وفود سے ملاقات کررہے تھے۔ مفاہمتی عمل میں ہرطرح کا تعاون کریں گے …نوازشریف وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’افغانستان کے ساتھ مفاہمتی عمل میں تعاون کریں گے‘‘ جبکہ مفاہمت کا یہ نسخہ کیمیاسابقہ حکومت ہی نے تحفے کے طورپر عطا کیا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا اعلان کردیا ہے تاکہ ایک دوسرے کے مفادات کا بھرپور طریقے سے خیال رکھا جائے اور نکتہ چینی کی بجائے ایک دوسرے کی عیب پوشی کو شعار بنایا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات بھی ستارالعیوب ہے جبکہ ہم سب کو بھی ان کے نائب کا درجہ دیا گیا ہے چنانچہ نندی پور پاور پراجیکٹ اور کئی دیگر معاملات پر قابل تعریف تعاون اور معاملہ فہمی سے کام لیا جارہا ہے جس پر ہم سابقہ حکومت اور موجودہ اپوزیشن کے دلی طورپر شکرگزار ہیں جبکہ انہیں بھی ہم سے ایسے ہی سلوک کی توقع رکھنی چاہیے کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد تالیاں بجانے کا موقعہ ملا ہے جسے ضائع کرنا کفران نعمت کے مترادف ہوگا۔ ہیں جی ؟آپ اگلے روز افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ گفتگو کررہے تھے۔ میرا صدر زرداری سے پانچ سال کا ٹھیکہ تھا جو پورا کردیا …پیراعجاز صدر آصف علی زرداری کے روحانی پیشوا پیراعجاز نے کہا ہے کہ ’’میرا صدر زرداری کے ساتھ پانچ سال کا ٹھیکہ تھا جو پورا کردیا‘‘ بلکہ میں نے تو انہیں کہا تھا کہ مزید مدت کے لیے بھی گوٹی جوڑ کردکھا سکتا ہوں لیکن وہ خود ہی یرک گئے اور کہا کہ یہ پانچ سال ہی ہضم کرلوں تو بڑی بات ہے کہ آنے والا وقت بہت نازک بھی ثابت ہوسکتا ہے؛ چنانچہ اس کرامات کے بعد اگر میاں صاحب بھی میرے حلقہ ارادت میں شامل ہوجائیں تو ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا ٹھیکہ کیا جاسکتا ہے، جس صورت میں انہیں اسلام آباد چھوڑ کر کچھ عرصے کے لیے سمندر کے قریب بھی رہنا پڑے گا جو ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے، آگے ان کی مرضی، ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پانچ سال تک دشمنوں نے صدر زرداری کو ایوان صدر سے نکالنے کے لیے ہرچال چلی لیکن خاکسار نے اسے ہربار ناکام بنایا کیونکہ بصورت دیگر میرے لیے بھی رہائش کا مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا کہ میں بھی ان کے ساتھ ایوان صدر ہی میں مقیم تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ نواز شریف کو اقتدار میں لانے والے ملک پر رحم کھائیں …جاوید ہاشمی پاکستان تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ’’نواز شریف کو اقتدار میں لانے والے ملک پر رحم کھائیں‘‘ جوپہلے ماشاء اللہ ہمیں اقتدار میں لارہے تھے لیکن یکلخت انہوں نے پینترا بدل لیا اور ہم دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے جبکہ کھبی دکھا کر سجی مارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور لوگوں کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ن لیگ کو ووٹ نہ بھی ملیں تو سیٹیں مل جاتی ہیں ‘‘ اور ہم ووٹ حاصل کرکے بھی ان سے محروم رہتے ہیں؛ چنانچہ آئندہ ہم بھی کوشش کریں گے کہ ووٹ حاصل کرنے سے اجتناب کریں تاکہ سیٹیں حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پہلی اسمبلی بیمار تھی جبکہ موجودہ اسمبلی مردہ ہے‘‘ چنانچہ نہ پہلی اسمبلی کا علاج کیا گیا اور نہ ہی موجودہ اسمبلی کے کفن دفن کا کوئی انتظام نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کے اندر ناانصافیوں کے نظام کو ہم روکیں گے ‘‘ البتہ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے جو انصافیاں ہم سے سرزد ہوئیں وہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں کارکنوں کے اعزاز میں دی گئی عیدملن پارٹی سے خطاب کررہے تھے۔ قابل تعریف …! 1500 میں سے 940نمبر حاصل کرنے والی جس طالبہ کو اس کے باپ نے غربت کے باعث گھر سے نکال دیا تھا کہ وہ اس کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا، وزیراعلیٰ شہباز شریف نے نہ صرف اس کا میڈیکل کالج میں داخلہ کروادیا ہے بلکہ اس کی فیسیں بھی معاف کردی ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک قابل تحسین کارگزاری ہے اور میاں صاحب ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ تاہم انہیں تعلیمی میدان میں ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعہ کو منظر عام پر لانے میں میڈیا کا کردار بھی لائق تعریف ہے۔ آج ہی کے اخبار میں ڈیٹ لائن رحیم یارخان سے شائع ہونے والی یہ خبر بھی صاحب موصوف کی ذاتی توجہ کی متقاضی ہے جس کے مطابق معمولی جرم کی پاداش میں گرفتاری کے لیے ایک نوجوان کے گھرپرپولیس نے چھاپہ مارا لیکن اسے موجود نہ پاکر اس کی 18سالہ بہن کو کسی نامعلوم مقام پر لے گئی کہ جب تک بھائی کو پیش نہیں کیا جائے گا وہ اسے نہیں چھوڑیں گے؛ چنانچہ بھائی کا اتہ پتہ نہ بتا سکنے پر پولیس نے اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس پر اس کے لواحقین نے ڈی سی او کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا اور تب جاکر اس لڑکی کو رہائی ملی جواب تک زخموں کی وجہ سے داخل ہسپتال ہے۔ واضح رہے کہ جب تک حکومت اپنی پولیس کو لگام نہیں دیتی اس کے اچھے کام بھی نظرانداز کیے جاتے رہیں گے کیونکہ ایسے کارہائے نمایاں پولیس سیاسی سرپرستی کے زیرسایہ ہی سرانجام دیتی ہے۔ آج کا مقطع اس طرح بادلوں کا چھتیں چھائی تھیں، ظفرؔ چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا